• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی معیشت کو درپیش سنگین خطرات اور چیلنجر بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ امریکہ کی سرتوڑ کوششوں کے نتیجے میں جاری ہونے والے این آر او سے مستفید ہوکر اقتدار میں آنے والی موجودہ حکومت نے استعماری ایجنڈے اور وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی ایک مربوط حکمت عملی کے تحت معیشت میں اس حد تک بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ کسی بھی داخلی یا بیرونی جھٹکے سے معیشت تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ پست مفادات کے حصول کیلئے معیشت میں خرابیاں اتنی زیادہ بڑھا دی گئی ہیں کہ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے صرف اصلاحی نہیں بلکہ انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ یہ امریکی حمایت کا ہی اعجاز ہے کہ این آر او کو کالعدم قرار دیئے جانے کے تین برس بعد بھی اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ وطن عزیز میں این آر او سیٹ اپ برقرار رہے۔ حکومت، اسٹیٹ بینک، عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹوں اور گزشتہ برسوں میں انہی کالموں میں پیش کی گئی ہماری گزارشات کی روشنی میں چند حقائق پیش ہیں جو معیشت کو درپیش بھیانک خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ (1) آمدنی سے زائد اخراجات کرتے چلے جانے کے نتیجے میں جولائی 2008ء سے جون 2012ء تک پاکستان کو 4564/ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہوا جبکہ ان برسوں میں بجٹ خسارے کا تخمینہ 2840/ارب روپے تھا۔ بجٹ خسارے کے بڑھنے کے وجوہات میں کئی ہزار ارب روپے کے ٹیکسوں کی کم وصولی، ریاست اور ریاستی اداروں کے شاہانہ اخراجات، کرپشن، حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی، توانائی کا بحران اور سیاسی بنیاد پر وضع کردہ این ایف سی ایوارڈ کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ حکمرانوں نے خود اپنے اور طاقتور طبقوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے عوام پر بوجھ ڈالے بغیر ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے اور کرپشن پر قابو پانے وغیرہ کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے کی ہی نہیں۔(2) گزشتہ تقریباً 5 برسوں سے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے حکومت اسٹیٹ بینک کے تعاون سے بلاواسطہ اور بالواسطہ تجارتی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کررہی ہے۔ اس ضمن میں کم از کم سات باتیں نوٹ کرنا اہم ہیں۔ (i) بینکوں نے صنعت، تجارت و زراعت وغیرہ کیلئے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے کا اپنا اصل کام بڑی حد تک چھوڑ دیا ہے چنانچہ اگلے چند برسوں میں بھی معیشت کی شرح نمو سست یعنی اوسطاً 3.5 فیصد سالانہ رہے گی نتیجتاً روزگار کے زیادہ مواقع پیدا نہیں ہوں گے (ii) بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس کا تقریباً نصف ان بینکوں کے پاس ہیں جن کے مالکانہ اکثریتی حصص غیر ملکیوں کی ملکیت ہیں۔ اگر کسی وقت ان بینکوں نے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت حکومت کو بجٹ خسارے کیلئے مزید قرضے دینے سے انکار کردیا یا شرائط سخت کردیں مثلاً شرح سودمیں اضافہ تو معیشت مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ (iii) بینکوں کا بجٹ خسارے کیلئے حکومت کو قرضے دیتے چلے جانے سے ان بینکوں میں ڈپازٹس رکھنے والوں کا اعتماد متاثر ہوسکتا ہے کیونکہ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی اب حکومت کے لئے مسئلہ بن رہی ہے۔ (iv) بینکوں کی کریڈٹ ریٹنگ متاثر ہوسکتی ہے جس سے بینکوں کو لیٹر آف کریڈٹ اور بینک گارنٹی کے کام میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ (v) قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔ (vi) آنے والے برسوں میں یہ خدشات بڑھ سکتے ہیں کہ حکومت داخلی قرضوں کی بروقت ادائیگی سے معذوری کا اظہار کرکے ان کے عوض درمیانی اور طویل المدتی بانڈز کا اجراء کر سکتی ہے۔ ان خطرات سے بچنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ (vii) موجودہ صورتحال میں اگلے 50 برسوں میں بھی معیشت سے سود کا خاتمہ ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔(3) پاکستان کو گزشتہ6برسوں سے محصولاتی توازن میں خسارے کا سامنا ہے یعنی قرضوں کو اس طرح استعمال کیا جارہا ہے جس سے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بڑھ ہی نہیں رہی۔ گزشتہ 8برسوں سے ملک کا بنیادی توازن (آمدنی اور اخراجات منفی سود کا فرق) منفی رہا ہے۔ مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں کو محدود کرنے کے ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہورہی ہیں مگر پارلیمینٹ بھی خاموش ہے کیونکہ ملک میں ”مفاہمت“ کی سیاست ہورہی ہے۔(4) گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں48/ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آ چکی ہیں وگرنہ ادائیگیوں کا توازن بے قابو ہوچکا ہوتا۔ استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں، حالات کی اچانک تبدیلی یا انٹر بینک مارکیٹ اور کھلی مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اچانک اضافہ ہونے سے بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات کا حجم تیزی سے کم ہوسکتا ہے، روپے کی قدر تیزی سے گر سکتی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اڑ سکتے ہیں۔ ان خطرات سے بچنے کی حکمت عملی وضع کرنا اب ناگزیر ہے۔(5) ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری ہونے دینے، ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹ و مراعات دیتے چلے جانے، کرپشن و کالا دھن بڑھتے چلے جانے، حکومتی شعبوں کے اداروں کی ناقص کارکردگی، انرجی کا بحران، نااہلی اور بدانتظامی وغیرہ سے قومی خزانے اور معیشت کو8800/ارب روپے سالانہ یعنی24/ارب روپے روزانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ اس نقصان کے بڑے حصے پر قابو پائے بغیر معیشت میں پائیدار بہتری آہی نہیں سکتی۔ (6) بینک نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گے کھاتوں پر کھاتہ داروں کو اپنے منافع میں شریک نہیں کررہے۔ اگر بینک2001ء سے2012ء تک کھاتہ داروں کو وہی حقیقی شرح منافع دیتے جو 2000ء میں دی تھی تو اس مدت میں کھاتہ داروں کو 1200/ارب روپے اس رقم کے مقابلے میں زیادہ ملتے جو بینکوں نے انہیں منافع کی مد میں دیئے تھے۔ یہ مقدمہ اور بینکوں کے قرضوں کی معافی کے ضمن میں اہم مقدمات وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے پس پشت ڈال دیئے ہیں۔
ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس نافذ اور وصول کرنا اور کرپشن پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات اٹھانا اب ناگزیر ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی و مذہبی پارٹیوں، تنظیموں و تحریکوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی جانب سے ان امور پر مناسب توجہ اور اہم ترین معاشی امور کو اہمیت نہیں دی جارہی کیونکہ انتخابات میں طاقتور اور مالدار طبقوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور کوئی بھی ان طبقوں کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا۔ قوم کو ایسے معاملات اور مقدمات میں الجھایا جاتا رہا ہے جو منطقی انجام کو پہنچیں گے ہی نہیں۔ یہ سب آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
تازہ ترین