• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زرداری صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ کو زمانہ تسلیم کرتا ہے وہ شخص جو وقت کی نبض پر مسلسل ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ تمام ضروری مہرے اور چہرے ہمہ وقت اس کے پولیٹکل ویئر ہاؤس میں ترتیب سے دھرے رہتے ہیں اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ کس کو کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ کس کو اتحادی بنانا ہے اور کس کو جھنڈی کرانا ہے۔ JUG کا مصرف کیا ہے اور متبادل کیا؟ اور متحدہ والوں کے ساتھ چھپن چھپائی کیسے کھیلنا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مشرف سے نجات کی رہ کن پگڈنڈیوں سے ہو کر گزرتی ہے؟ اس کے ماسٹر اسٹروکس لاجواب ہوتے ہیں۔ وہ بیک وقت تخلیق کار بھی ہے اور ہدایت کار بھی۔ ضرورت پڑے تو اداکاری میں بھی جواب نہیں رکھتا۔ بینظیر شہید ہوگئی اور ”وفاق کی زنجیر“ ٹوٹ گئی تو وہ یکایک محافظ پاکستان کے منصب پر فائز ہوگیا اور ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ ہماری سیاسی لغت میں نیا اضافہ ٹھہرا۔تاریخ بے شمار پولیٹکل فلاسفرز کے ناموں اور کاموں سے بھری پڑی ہے مگر ضرب المثل صرف دو نام ہیں یورپ میں میکاولی، جس کی تالیف ”دی پرنس“ آج کے حکمران بھی تکیہ کے نیچے رکھ کر سوتے ہیں اور دوسرا چانکیہ، جس کی تصنیف ”ارتھ شاستر“ برصغیر کی اولین ہندو سلطنت کے بانی چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کیلئے راج نیتی کی گتھیاں سلجھاتی رہی اور آج کے حکمرانوں کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔ میں نہیں جانتا جناب صدر میکاولی اور چانکیہ میں سے کس کے مرید ہیں (ان کے سسر صاحب تو اول الذکر کے تھے) مگر ایک بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر موصوف ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ صوبے والی چال نہ چلتے تو میکاولی اور چانکیہ بھی ان کے سامنے پانی بھرتے دکھائی دیتے اور پولیٹکل فلاسفی کے شاہکاروں میں ”زرداری نامہ“ کا بھی اضافہ ہو جاتا۔
کوئی وقت تھا زیادہ دور کا بھی نہیں یہی کوئی 10/15برس پیشتر سرائیکی صوبے کا مطالبہ غداری کی ذیل میں آتا تھا۔ یار لوگ سرائیکی کو الگ زبان تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے تھے اور اسے پنجابی کی ہی ایک شکل قرار دیا جاتا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی تک نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سرائیکیوں کی بلائیں لینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں پاگل ہوئی جا رہی تھیں اور خوفزدہ تھیں کہ نئے صوبے کا لالی پاپ تھمانے میں مخالف پارٹی کہیں سبقت نہ لے جائے۔ چنانچہ اسی اضطراری کیفیت میں9مئی2012ء کو پنجاب اسمبلی نے دو نئے صوبوں صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کی متفقہ قرارداد منظور کر لی۔ سرائیکی بیلٹ کے ووٹوں سے صندوقچیاں بھرنے کے تصور سے سرشار پیپلز پارٹی نے جھٹ سے14رکنی پارلیمانی کمیشن بنا دیا۔ 12ممبرز کی نامزدگی قومی اسمبلی کی اسپیکر صاحبہ نے خود کر دی اور باقی دو کیلئے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو لکھ بھیجا۔ مگر مت یہ ماری گئی کہ پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد کی سپرٹ کے برعکس اس نام نہاد کمیشن کی تمام تر توجہ پنجاب میں سے اپنی مرضی کا ایک اَن گھڑت سا صوبہ تراشنے پر مرکوز رہی۔ حالانکہ قرارداد میں واضح طور پر دو صوبوں کا ذکر تھا ساخت کے اعتبار سے بھی کمیشن ایک عجوبہ تھا، پنجاب اسمبلی کی نمائندگی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ دو تہائی پنجاب سے ایک بھی رکن قومی اسمبلی/ سینیٹر نہیں لیا گیا جبکہ ایم کیو ایم اور اے این پی والوں کی نمائندگی ضروری سمجھی گئی باایں ہمہ اس ادھورے اور غیرفطری نام نہاد کمیشن کی کارروائی نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ جاری رہی اور رپورٹ مرتب کر کے قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔
پیپلز پارٹی نہ جانے کس خوش فہمی میں سرائیکی بیلٹ کو جیب کی گھڑی سمجھتی ہے لہٰذا اس کوشش میں رہی کہ ایک بھی سرائیکی ان کے مجوزہ صوبہ ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ سے باہر نہ رہ جائے۔ اسی لئے تو بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنز کے ساتھ ساتھ بھکر اور میانوالی کے اضلاع کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ خواہشوں کے گھوڑوں پر سواری پر پابندی تو نہیں مگر نقشہ سامنے رکھ کر مجوزہ صوبے کی شکل دیکھ لیتے تو ان کا اپنا ہاسہ نکل جاتا۔ لاہورکی بغل میں بسنے والے بھکر اور میانوالی کو نہ جانے کس جرم میں مجوزہ صوبے میں شامل کر دیا وہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ معاملہ لٹک گیا اگر تھرو ہو جاتا اور بیچاروں کو بہاولپور کے پھیرے لگانے پڑتے تو نانی یاد آ جاتی۔ نہ جانے مذکورہ کمیشن کے بقراطوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جاں بخشی کیوں کر دی، سرائیکی تو وہاں بھی بولی جاتی ہے وہ دوسرے صوبے میں واقع ہے تو کیا ہوا؟ دو شکموں سے ایک طفل کی پیدائش کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام بھی تو لکھوایا جا سکتا تھا۔ تفنن برطرف زمینی حقیقت یہی ہے کہ یہ سب پھرتیاں ایک بیہودہ سے سیاسی اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں۔ سرائیکی لاکھ سادے سہی مگر اتنے بھی نہیں۔
وفاقی اکائیوں کی تشکیل نو بچوں کا کھیل نہیں یہ وہ سرسوں نہیں جسے ہتھیلی پر جمایا جا سکتا ہو اور وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں جو خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں نسلی اور لسانی ایشوز سیاسی اور انتظامی مسائل سے کہیں زیادہ گمبھیر ہیں نئے صوبے ضرور بنائیں مگر قومی اتفاق رائے کے ساتھ۔ سب اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر، نسلی اور لسانی مسائل کو سامنے رکھ کر۔ مانا کہ نئے صوبوں کی تشکیل ناقابل تردید حقیقت ہے مگر اس میں بھی کسی کو شک نہیں ہوناچاہئے کہ تقسیم نو اور تشکیل نو کے عمل سے صرف پنجاب ہی کو نہیں گزرنا، یہ گھڑی سب پر کھڑی ہے۔ جلد یابدیر۔ سابق NWFP میں نیا صوبہ تخلیق نہیں ہوا تھا محض نام تبدیل ہوا تھا اور ہزارہ والوں کے نالے مسلسل آسمان کو چھو رہے ہیں اور صوبہ ہزارہ کی منزل دور نہیں رہی۔ سندھ کی دیہی/ شہری تقسیم اور اس حوالے سے حکومت کی بعض بدحواسیاں سندھ کی تقسیم کی منزل بھی قریب تر لا رہی ہیں۔ یہ ہوا چل نکلی تو بلوچستان کا کیس بھی بہت مضبوط ہوگا۔
اہل سیاست اپنے آپ کا اور قوم کا مذاق نہ بنائیں گرو (Grow) کرنا سیکھیں، دائیں بائیں ہی دیکھ لیں، اسٹیٹس مین نہیں بن سکتے نہ سہی سیاست کے مقام سے تو نہ گریں۔ سیاسی چالبازیوں اور پوائنٹ اسکورنگ کی ایک حد ہوتی ہے۔ پاکستان بھی انشاء اللہ ادھر ہی ہے اور یہ الیکشن بھی خدانخواستہ کوئی آخری الیکشن نہیں۔ کسی جماعت کی دوچار سیٹیں اوپر نیچے ہونے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی، الیکشن ہونے دیں اور نئے صوبوں کی تشکیل جیسا پیچیدہ معاملہ اگلی پارلیمینٹ پر چھوڑ دیں جس کے پاس سوچنے کیلئے بھی وافر وقت ہوگا اور عمل کیلئے بھی اور جن کے ذہن بھی یکسو ہوں گے۔ بھارت میں صوبوں کی تشکیل نو کا کمیشن دو برس تک سرجوڑے بیٹھا رہا تھا ہمیں بھی دھیرج رکھنا ہوگی اور پھر لاہور ہائیکورٹ بھی پارلیمانی کمیشن کی قانونی حیثیت پر معترض ہو چکی اور یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ اسمبلیوں کے پاس نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ ہی نہیں۔
مرحوم و مغفور پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کا قومی اسمبلی میں سواگت بھی جناب صدر نے دیکھ لیا ہوگا میانوالی کے عمرحیات روکڑی نے مسودے کو چاک کر کے پرزے جس توہین آمیز انداز میں ہوا میں اچھالے تھے وہ منظر بھی کسی ویڈیو میں دیکھ چکے ہوں گے۔ ہزارہ والوں کا احتجاجی واک آؤٹ بھی ان کے نوٹس میں ہوگا اور حاجی منیر اورکزئی کا یہ واویلا بھی انہوں نے سن لیا ہوگا کہ اس میں تو قبائلی علاقہ جات کو صوبائی درجہ دینے کا ذکر تک نہیں۔ جناب صدر اپنے اسٹاف آفیسر اور کمیشن کے سربراہ فرحت اللہ بابر کے اس کمنٹ سے بھی آگاہ ہوں گے کہ اور کچھ نہیں تو یہ سارا ہلّا گلّا اور کمیشن کی رپورٹ موضوع پر مستقبل کے مباحث کیلئے بنیاد فراہم کرے گی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ زندہ قوموں کی نظر بائی پراڈکٹ پر نہیں اصل پراڈکٹ پر ہوتی ہے اور پارلیمینٹ کو کھیل تماشے کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں زرداری صاحب! ایوان صدر یا بلاول ہاؤس کے کسی الگ گوشے میں بیٹھ کر یہ ضرور سوچیں کہ کہیں آپ کے خلاف کوئی سازش تو نہیں ہوئی؟ اور اگر ہوئی ہے تو اس کے پیچھے کون ہے؟
تازہ ترین