• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس، درخواستیں سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

اسلام آباد(اے پی پی) سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ اعتراضات کے باعث ٹوٹ گیا۔

دو ججزکی علیحدگی کے بعد بینچ ٹوٹ گیا، معاملہ چیف جسٹس کوبھجوادیا گیا، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف زیرسماعت صداراتی ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کیلئے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔

منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بینچ پراعتراض اٹھاتے ہوئے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ اس وقت پوری قوم کی نظریں اسی کیس پر لگی ہوئی ہیں۔

اس حوالے سے میرے موکل کی ہدایت ہے کہ کسی ذاتی فائدے کے لئے عدلیہ پر کوئی حرف نہ آنے دیاجائے، فاضل وکیل نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ایک حالیہ تقریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ چیف جسٹس نے نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ احتساب کے موجودہ عمل سے غیر متوازن اور سیاسی انجینئرنگ کا تاثر مل رہا ہے۔

میرے موکل کے آئینی درخواستوں کی سماعت کرنے والے اس بینچ میں کچھ ایسے ججز موجود ہیں جن کو یہ مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے، کیونکہ کوئی جج اپنے کاز کا جج نہیں ہو سکتا۔

فاضل وکیل نے آئینی درخواستوں کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کے علاوہ باقی ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، یہ اہم ترین معاملہ ہے ، منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی کا حتمی دفاع عوام کرتے ہیں، اس لئے جن ججز کے مفادات اس کیس سے جڑے ہیں انہیں ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں ہوناچاہیے۔

جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمرعطابندیال نے ان سے استفسارکیا کہ آپ ہمیں بتائیں کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے تو منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی جج متعصب ہے۔جس پر بینچ کے سربراہ نے ان سے کہا کہ میں آپ کو یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے، کسی جج کو کسی بھی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جج کی جانبداری کی بات کرکے آپ غلط جانب جا رہے ہیں، اس لئے ہم تعصب یا جانبداری پرآپ سے مزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جن ججز نے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننا ہے ان کی اس کیس میں دلچسپی ہوسکتی ہے، اوراس بینچ کے دو ججز ممکنہ طورپر چیف جسٹس بنیں گے، اس لئے اس کیس سے ان کا براہ راست مفاد وابستہ ہوسکتا ہے، کیونکہ چیف جسٹس بننے سے ان کی تنخواہ بڑھے گی۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک سابق چیف جسٹس کے ایک فیصلے کاحوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس فیصلے کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا، اب ہمیں بتایاجائے کہ آپ کیسے تشریح کرسکتے ہیں کہ اس کیس میں متعصبانہ سوچ ہے، کوئی یہ نہیں جانتا کہ کل کون زندہ رہے گا، اس لئے آپ کس طرح آئندہ برسوں کی بات کرتے ہیں، آپ کو تواداروں کو مضبوط کرنے کیلئے کھڑا ہونا چاہیے، اگلے چار برس کے مفروضوں کی بات نہ کریں۔

تاہم کیس کی سماعت کے دوران اگر آپ کوئی لچک دیکھیں تو عدالت کو آگاہ کرسکتے ہیں، لیکن کیس کے آغاز میں بینچ پر سوال اٹھانا صحیح نہیں ہے، اس کیس میں ججوں کا ہرگز ذاتی مفاد نہیں ہے، اس لئے اس طرح کی باتیں صرف افواہوں کا دروازہ کھولیں گی، آپ مستقبل کی بات کررہے ہیں، جو بہت دور ہے۔

بینچ کے سربراہ نے فاضل وکیل کومخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سماعت میں شفافیت بھی بینچ نے لانی ہے۔

تازہ ترین