• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہیں ریاست ِ مدینہ کے قیام پر تو یوٹرن نہیں لے لیا گیا؟

اسلام آباد (تبصرہ: انصار عباسی) اپنی حکمرانی کے گزشتہ ایک سال کے دوران لاتعداد یو ٹرن لینے اور ان کا دفاع کرنے کے بعد اب حکمران جماعت پی ٹی آئی نے انتہائی متنازع اور باعث ہزیمت یو ٹرن لیا ہے؛ وہ بھی ایک ایسے معاملے پر جو مسلمانوں کیلئے مثالی ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے تحت براہِ راست پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے سے متعلق ہے۔

پیر کو خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے صوبے میں لڑکیوں کیلئے لازمی اسلامی ڈریس کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا۔ شام تک میڈیا اور منتخب لبرل طبقے کے دبائو کی وجہ سے صوبائی حکومت نے نوٹیفکیشن واپس لینے کا اعلان کر دیا۔

اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اقدام کا نوٹیفکیشن واپس لیتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان نے عجیب بات کہی کہ جسے جو پہننا ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق پہن سکتا ہے اور حکومت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی ترجمان نے کہا وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ آئین پاکستان کی شقوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی رہنمائوں کی اکثریت بشمول وفاقی و صوبائی وزیروں نے اس معاملے پر بات سے گریز کیا لیکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے فوراً ہی یو ٹرن کے اس اقدام کی تعریف کی۔

انہوں نے ٹوئیٹ جاری کی کہ ’’دانشمندی باقی رہ گئی۔ لڑکوں کی حرکتوں پر لڑکیوں کو کیوں سزا دی جائے؟ لڑکیوں کو نشانہ بنانے پر لڑکوں کو سزا دیں، ہم اپنی لڑکیوں پر پابندی عائد نہیں کر سکتے۔ ضیاء جیسے آمر کے دور میں واپس جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

اسلامی تعلیمات میں خواتین کیلئے ڈریس کوڈ طے کیا گیا ہے اور مردوں اور خواتین کیلئے حیاء پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اسلام عورت کو پابند بناتا ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو وہ خود کو مناسب انداز سے ڈھکیں تاکہ کوئی انہیں ہراساں کرے اور نہ ہی چھیڑے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے پہلے نوٹیفکیشن میں صوبے کے اسکولوں مین پڑھنے والی طالبات کیلئے پردہ کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

ضلعی ایجوکیشن افسر نے سرکاری اسکولوں کے سربراہان کو پابند کیا تھا کہ وہ یقینی بنائیں کہ سیکنڈری سے ہائر سیکنڈری تک کی لڑکیاں عبایہ، گائون یا پھر چادر لیں تاکہ ممکنہ ہراسگی سے خود کو بچا سکیں۔ میڈیا کے حلقے اور پاکستان میں لبرل لوگوں نے اس حکم نامے کیخلاف مہم شروع کی اور اسے جابرانہ اور لڑکیوں کے حقوق کے منافی اقدام قرار دیا۔

منتخب میڈیا ٹاک شوز اور متعصبانہ پروگرامز نشر کیے گئے تاکہ صوبائی حکومت کے نوٹیفکیشن کو واپس کروایا جا سکے۔ مذہبی اسکالرز سے بھی رجوع نہیں کیا گیا کہ اسلام کا پردے کے متعلق کیا حکم ہے، جبکہ ٹی وی میزبانوں اور ان کی پسند کے شرکاء کو کھلی آزادی دی گئی کہ وہ یہ اخذ کریں کہ پردہ ضروری نہیں۔ اپنے سیکولر خیالات کی وجہ سے مشہور آئینی ماہرین کو مدعو کرکے ان سے کے پی حکومت کے فیصلے پر قانونی رائے طلب کی گئی لیکن انہوں نے بھی آسانی سے آئین کی اسلامی شقوں کو نظر انداز کر دیا۔

لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی طے شدہ ایجنڈا تھا جس کے تحت کے پی حکومت کے فیصلے کو منسوخ کرانا تھا۔

حکمران جماعت پی ٹی آئی نے پردہ مخالف مہم کے حامیوں کو مایوس نہیں کیا اور فوری طور پر نوٹیفکیشن کی منسوخی کا اعلان کیا۔ آئین کے آرٹیکل (1)31 کے مطابق،’’پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔‘‘

آئین کا حصہ سمجھی جانے والی قراردادِ مقاصد دیکھیں تو وہاں بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے:

 ’’چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی؛ جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا؛ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق، جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔‘‘

ایلیمنٹری اور سیکنڈری تعلیم کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے پی کے مشیر ضیاء اللہ بنگش، جن کے اقدام پر صوبائی حکومت نے اسلامی ڈریس کوڈ کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، سے رابطہ کیا گیا تو وہ نوٹیفکیشن کی منسوخی پر پریشان معلوم ہوئے۔

اگرچہ انہوں نے کسی تبصرے سے گریز کیا لیکن ان کے قریبی ذریعے نے بتایا کہ بنگش احتجاجاً کابینہ سے استعفیٰ دینے پر غور کر رہے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ بنگش نے وزیراعلیٰ کو بتایا ہے کہ صوبائی حکومت ملک کے ایک فیصد لبرل طبقے کے دبائو میں آگئی جبکہ 99؍ فیصد عوام اسلامی ڈریس کوڈ پر تعریف کر رہے تھے۔

جس وقت میڈیا کے کچھ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کی اکثریت کے پی حکومت کے فیصلے سے پریشان تھی، امریکا کے پیو ریسرچ سینٹر نے 2014ء میں ایک سروے کے نتائج جاری کیے تھے جن کے مطابق 98؍ فیصد پاکستانی چاہتے ہیں کہ ان کی خواتین باہر نکلتے وقت پردہ کریں (جو اسکارف سے لے کر مکمل پردے پر متشمل ہو سکتا ہے)۔ صرف 2؍ فیصد لوگ ایسے تھے جو سر ڈھانپے بغیر باہر جانے کے حق میں تھے۔

جس وقت پی ٹی آئی کی حکومتِ پاکستان اسلامی ڈریس کوڈ کے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے رہی تھی اس وقت الجزیرہ ٹی وی نے ایک حالیہ سروے کی رپورٹ دی کہ مغرب میں خواتین کو کس قدر استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، لاکھوں امریکی خواتین کا کہنا ہے کہ ان کا پہلا جنسی تجربہ ریپ پر مشتمل تھا۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر 16؍ میں سے ایک عورت کو ٹین ایج میں جبری سیکس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

تازہ ترین