• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ، بریگزٹ گتھی سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بریگزٹ کا ایشو برطانیہ کی سیاسی فضا پر اس حد تک چھا چکا ہے کہ گزشتہ بدھ کی رات ڈیڑھ بجے بھی ہاؤس آف لارڈز سیشن میں تھا اور کم از کم 350 سے زائد لارڈز ہاؤس میں موجود تھےاور بریگزٹ پر بحث جاری تھی۔
اب اسی بریگزٹ کی بازگشت واشنگٹن پوسٹ میں بھی سنائی دی گئی ہے۔ پیر 9 ستمبر کے روز پوسٹ نے لکھا ہے کہ برطانوی وزریراعظم کے پاس اپنے بریگزٹ بدنظمی سے فرار کے چار آپشنز بچے ہیں، جن میں ایک جیل جانا بھی شامل ہے۔ ایک وزیراعظم کے جیل جانے کو چاہے آپ ازراہ تفنن کے طور پرلیں یا ایک حقیقی سنجیدہ آپشن، مگر اس کو بذات خود ایک آپشن کے طور پر ڈسکس کرنا ہی برگزٹ معاملہ پر حکومت کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے ۔
وہ مسئلہ جس نے برطانیہ کو تقریباً” تین سال سے جکڑے ہوئے ہے اس کے حل کا سب سے بہتر آپشن شاید یہ ہے کہ بورس جانسن ای یو سے دوبارہ ایک انخلاء کا معاہدہ کرنے کے لئے مذاکرات کریں۔ لیکن اعلیٰ ای یو قیادت اس حوالے پلک جھپکنے سے بھی فی الوقت انکاری ہے۔اب مسٹر جانسن کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ اس بابت بھرپور کوشش کریں۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اپنے الفاظ چبا کر بریگزٹ توسیع اپلائی کریں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ای یو لیڈرز اس پر رضامند ہوں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس کے لئے تمام ستائیس ممالک کا متفقہ فیصلہ چاہئے، تیسرا آپشن جانسن رضاکارانہ مستعفی ہوسکتے ہیں تاکہ پھر نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جاسکے۔ اور امکانی طور پر جانسن نائجل فراج کے اشتراک سے کنزرویٹو کو جتوانے میں کامیاب ہو جائیں اور ان کا بریگزٹ خواب پایہ تکمیل تک پہنچ سکے اور یہ انخلاء پھر 31 اکتوبر کے بجائے بعد میں کسی اور تاریخ کو کر دیا جائے۔
ایک ہفتہ کے شکست کے پہ در پہ واقعات کے بعد بورس جانسن کے حوالے دکھائی دیتا ہے کہ ان کے پاس آپشنز ختم ہو چکے ہیں۔جس باعث برطانوی وزیراعظم بے تابی سے قبل ازوقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح اس گنجلک مسئلہ سے اب ان کی جان چھوٹے۔ ای یو سے کسی نئی ڈیل پر جن مذاکرات کا وہ لوگوں کو جھانسا دیتے رہے ہیں خود ان کے اپنے وزراء کا ان کے انعقاد پر ہی شکوک شبہات ہیں اہم کیبنٹ منسٹر ایمبررڈ کا استعفیٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
تو پھر وزیراعظم یا دیگر پارٹیاں اب کیا کریں ؟
اس حوالے پیر 9 ستمبر کے دی ٹائمز لندن نے “ایک ڈیل لاؤ “ کے عنوان سے اداریہ میں یہ صائب مشورہ دیاہے کہ تمام متعلقہ پارٹیز کے لئے بہترین لائحہ عمل یورپین یونین کے ساتھ ایک ڈیل کو محفوظ بنانا ہے-
ایک ہفتہ قبل ہی بورس جانسن نے بطور وزیراعظم با اعتماد یقین کے ساتھ آغاز کیا تھاجس باعث یہ کہنا ممکن تھا کہ وہ اپنی پارٹی اور ملک کو درکار لیڈرشپ کی توانائی اور طاقت کو کسی حد تک ابھارنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اس صبح وہ آوٹ آف آپشنز دکھائی دیتے ہیں اور پہلے سے ہی یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ انہیں جلد مستعفی ہونے پر مجبور کردیا جائے گا۔ سچائی یہ ہے کہ چیزیں اتنی بھی ناامید نہیں ہیں جتنی وہ دکھائی دیتی ہیں ۔ مسٹر جانسن کے پاس درحقیقت ایک گڈ آپشن موجود ہے کہ وہ یورپین یونین کے ساتھ ایک ڈیل کریں۔ ہرچندکہ یہ سہل کام نہیں۔ مسٹر جانسن نے اپنے لئے ایک اونچی بار سیٹ کرلی ہے جب انہوں نے کہا کہ تھریسامے کی انخلاء کے اگریمنٹ سے آئریش بیک سٹاپ کو سنجیدہ گفت و شنید کے شروع کئے جانے سے پہلے نکالنا ہوگا۔ اگرچہ اس امر کا یقین کرنا خاصا دشوار ہے کہ خفیہ مذاکرات میں کیا کچھ چل رہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ مسٹر جانسن کی حکومت نے متبادل طور پر کوئی ایسے انتظامات کئے ہیں کہ جن سے اس سیریس مسئلہ کو حل کیا جاسکے۔ ایمبر رڈ جنہوں نے بروز ہفتہ کیبنٹ اور کنزرویٹیو وہپ دونوں عہدوں سے اسے استعفی دیا ہے نے یہ بدترین الزام عائد کیا ہے کہ طاقت کے مرکز کے قریب ہوتے ہوئے انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ حکومت ایک ڈیل کے لئے سنجیدہ ہے دی ٹائمز مدیر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر اسے تبدیل کیا جائے ۔
اپنے اعلانات اور پارلیمنٹ کے اندر شکست اور حکومتی جماعت کی اکثریت سے محروم ہونے کے بعد وزیراعظم نے اپنے آپشنز کو اگرچہ محدود کر دیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ای یو سے مذاکرات نہیں کرسکتے۔ اگر ایک جنیوین پراگریس کی جائے تو پیش رفت ممکن ہے۔ ایک بڑی رکاوٹ ڈیل کے راستے میں آئریش سوال کا حل ہے۔ اگر برٹش گورنمنٹ سنجیدہ پروپوزلز لائے تو پھر ایک ڈیل کا امکان ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے جنرل الیکشن سے انکار اور خود اپنے انکار کہ برطانیہ کی ای یو ممبرشپ 31 اکتوبر سے توسیع کرسکتی ہے مسٹر جانسن ٹریپ میں آگئے۔ اب وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ سے استعفی پر مجبور کر دیئے جا رہے ہیں۔ اس ٹریپ سے نکلنے کا طریقہ ایک ڈیل کا حصول ہے۔ برطانیہ کے لئے ایک بدترین ای یو ڈیپارچر سے بچنے کا بہترین طریقہ ایک ڈیل جیتنے میں مضمر ہے یہ اب مسٹر جانسن کے لئے نہایت موزوں اور شاید واحد آپشن رہ گیا ہے اس کا متبادل جیرمی کوربن کو ڈاؤننگ سٹریٹ میں داخلہ کی اجازت دینا ہے۔
بروز منگل 10 ستمبر سے برطانوی پارلیمنٹ اگلے پانچ ہفتوں یعنی چودہ اکتوبر تک کے لئے معطل کر دی گئی ہے یہ معطلی وزیراعظم نے اپنے تہیں یورپ سے برطانیہ کے باہر نکلنے کے عمل کو ہر صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ملکہ سے کرائی ہے ۔ مگر اس پارلمینٹ معطلی پر برطانیہ بھر میں خاصا منفی ردعمل سامنے آیا ہے جبکہ سی این این کے مطابق اس معطلی سے قبل پیر کی شب رات گئے یعنی منگل کو الصباح وزیراعظم بورس جانسن کی ملک میں قبل ازوقت الیکشن کرانے کی ایک اور کوشش کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ وہ اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کے خواہاں تھے تاہم فکسڈ ٹرم پارلیمنٹ ایکٹ کو تمام ہاؤس آف کامنز میں کامیابی کے لئے درکار دو تہائی ووٹ نہیں مل پائے۔ اس ارلی پول میں وزیراعظم اپنے موشن کی حمایت میں دو سو 93 ووٹ حاصل کر سکے ۔ جیتنے کے لئے چار سو 34 ووٹ کی ضرورت تھی۔ بی بی سی کے مطابق الیکشن ووٹ کی یہ شکست مسٹر جانسن کی ہاؤس آف کامنز میں چھٹی شکست ہے ۔ جس کے بعد اب وزیراعظم کے پاس آپشنز مزید محدود ہوگئے ہیں۔
گزشتہ منگل کو بھی وزیراعظم کو اس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ہاؤس آف کامنز کی کارروائی کنٹرول کرنے لئے پیش کی گئی ریزولیشن تین سو 1 کے مقابلے میں تین سو 28 ووٹ سے کامیاب رہی تھی۔ جس کے نتیجہ میں حزب مخالف بریگزٹ میں تاخیر کا بل پیش کرنے کے قابل ہوگئی تھی۔ قابل ذکر طور پر حکومت کے اپنے بعض باغی یا منحرف اراکین نے حزب اختلاف کا ساتھ دے کر اپنی پارٹی کے پر کاٹ دیئے۔ اب چونکہ بورس جانسن یہ اعلان بھی کرچکے تھے کہ اگر 31 اکتوبر بریگزٹ ڈیڈ لائن میں توسیع پر مجبور کیا گیا تو وہ قبل ازوقت الیکشن کرانے کا مطالبہ پیش کریں گے کہ تعطل ختم کرنے کا واحد راستہ اب نیا الیکشن ہے ان کا موقف تھا کہ ای یو سے برطانیہ کے انخلاء کی تاریخ میں توسیع کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے کیا جانا چاہئے مگر جب پیر کو انہوں نے پندرہ اکتوبر کو الیکشن کرانے کا مطالبہ پیش کیا تو رائے شماری میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ غالباً یہ بات بھول گئے تھے کہ موجودہ ممبران پارلیمنٹ بھی عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہو کر آئے ہیں اور ابھی اس پارلیمنٹ کی مدت میعاد باقی ہے۔ تاہم ڈبیٹ کے دوران مسٹر جانسن نے عام لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حزب مخالف عام انتخابات میں اپنی ممکنہ شکست کے ڈر سے قبل ازوقت الیکشن کی مخالفت کر رہی ہے حالانکہ قبل ازوقت انتخابات کا راستہ بھاری اخراجات اور بھاری وسائل کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ اس شکست کے بعد اب وزیراعظم کے پاس آپشنز مزید کم ہوگئے ہیں جبکہ ملکہ نے بغیر معاہدہ کے برطانیہ کے یورپ سے نہ نکلنے کے قانون کی منظوری بھی دے دی ہے جبکہ گزشتہ روز کی مسٹر جانسن کی شکست اور پارلیمنٹ معطلی کی بعد واشنگٹن پوسٹ منگل 10 ستمبر کا تبصرہ ہے کہ وزیراعظم کو امید تھی کہ الیکشن کی صورت میں وہ اکثریت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو انہوں نے گزشتہ ہفتے کھوئی تھی چاہے یورپی یونین سے کوئی ڈیل نہ بھی ہو سکے مگر ان کو ملک کو ای یو سے انخلاء کا فری ہینڈ مل جائے گا اور وہ اپنے وعدہ کو نبھا سکیں گے۔لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ جبکہ اس معاملہ کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم کا اصرار رہاہے کہ وہ بریگزٹ توسیع کے لئے ای یو سے درخواست نہیں کریں گے۔ لیکن ان کے خلاف جو قانون پاس ہوگیا ہے وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر 19 اکتوبر تک بدستور کوئی ڈیل نہیں طے پاتی تو وہ ایکسٹینشن کے لئے اپلائی کریں۔ سخت گیر بریگزٹ حمایتی یہ تجویز کرچکے ہیں اور جانسن کے ناقدین بھی یہ خبردار کر چکے ہیں کہ وہ قانون سے انحراف کرسکتے ہیں۔ جانسن بذات خود اس بات کو کہنے سے انکار کر چکے ہیں کہ وہ واقعی قانون کی تعمیل کریں گے جبکہ ایک ماڈرن برٹش لیڈر کی قانون میں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ وہ جان بوجھ کر ایکٹ آف پارلیمنٹ کو نظر انداز کردے۔ ایسا کرنا اس خطرہ کو مول لینا ہے کہ یہ قانون سے انحراف ہے ۔ اور جیل میں ڈالا جاسکتاہے ۔ تاہم ٹاپ منسٹرز کا اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
جائزہ کاروں کی رائے ہے کہ مسٹر جانسن کی بہترین امید شاید یہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ای یو لیڈروں کے ساتھ قدرے بہتر ڈیل کر سکیں تاہم ابھی تک ای یو رہنماوں کا موڈ ان کو یہ گرائونڈ مہیا کرنے کی طرف مائل معلوم نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ مائل کرم ہو بھی جائیں تو خود برطانیہ کی پارلیمنٹ سے منظوری لینے میں انہیں شاید کافی جدوجہد کرنی پڑے۔
جبکہ بعض لوگوں کی رائے میں ایک دوسرا ریفرنڈم ہی ایک ایسا واحد امکانی راستہ ہے جو اس صورت حال سے ملک کو نکال سکتا ہے۔ جس میں لوگوں سے یہ دریافت کیا جائے کہ کیا برطانیہ بریگزٹ کرے یا کہ نہیں ؟
تازہ ترین