• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں چند دن پہلے ایک کتاب ”آوارہ دوست“ پڑھ رہا تھا۔ ایک زمانہ میں یہ میری پسندیدہ کتاب تھی۔ اس میں صرف دو باب تھے۔ایک ”مینار ِ پاکستان“ اور دوسرا ”قحط الرجال“ ۔ پہلے مضمون کا حاصل مطالعہ یہ چند جملے ہیں ”میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کررہاتھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کرمیرے کان میں رازکی بات کہہ دی جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں، جہاد کی جگہ جہود اور حق کی جگہ حکایت کومل جائے ، ملک کی بجائے مفاد اورملت کی بجائے مصلحت عزیزہو اور جب مسلمانوں کوموت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے تو صدیاں یوں ہی گم ہو جاتی ہیں۔“
یاد رہے اس کتاب کے مصنف جناب مختارمسعود ہیں۔ 1972 کے عشرہ میں یہ کتاب منظر عام پر آئی تھی۔ ایک بیوروکریٹ کی جانب سے ایسی تحریر بہت ہی منفرد کوشش تھی ۔پھر کتاب بہت دلگیر بھی لگی۔ 1971 کا المیہ گزرچکا تھا۔ ادھر مغربی پاکستان کے چاروں صوبے صبر اورشکر کررہے تھے۔ ملک میں جمہوریت رائج ہوچکی تھی۔ سکہ رائج الوقت پر جناب ذوالفقار علی بھٹو کا نام درج ہو چکاتھا۔ ہمارا سابقہ دیش اپنے نئے بنگلہ دیش کے حوالے سے دنیا میں پہچان کرارہا تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ جمہوریت کے گھمنڈ میں بے مزہ ہوچکا تھا۔ پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا منشور طاق نسیان کر دیا تھا۔ پارٹی پر سابقہ جنوبی پاکستان کے جاگیردار قابض ہوچکے تھے، پارٹی ترقی پسندی اورلبرازم کو آگے بڑھانے پرتیار نہ تھی۔ قائد عوام، جمہوریت کے نشے میں سرشار تھے، اس وقت تک جمہوریت کے ذریعے انتقام لینے کامنصوبہ شروع نہیں ہوا تھا۔ایسے میں ایسی کتاب بہت ہی پسندیدہ اور مقبول ہوئی۔ اتنے سال گزرنے کے بعد جب میں اس کتاب کا مطالبہ کرتا ہوں تو کتاب مجھے پریشان کردیتی ہے۔ ہماری مسجدیں دوبارہ آباد اور مدرسوں کی رونق میں اضافہ ہوا ہے مگر باقی سب کچھ ویسا ہی ہے۔ اب پاکستان میں پاکستانی کم اور مسلمان زیادہ ہیں۔ ایک دفعہ اشفاق احمد خان کی ایک تحریر کاذکر ہو رہاتھا جس میں اشفاق صاحب نے مسلمان اور مومن کا فرق بتایا، ان کے مطابق مسلمان وہ ہوتاہے جو اللہ کو مانتا ہے اورمومن وہ جواللہ کی مانتا ہے تو مجھے خیال آیا پاکستان میں سب ہی مسلمان ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں مگر جانتے نہیں اور کچھ پاکستانی جو اللہ کی مانتے ہیں مگر وہ بے چارے بے آسرا اورگمشدہ ہیں۔ اب جہادکو دوستوں اور مہربانوں نے دہشت گردی کا نام دے دیا ہے۔ کبھی ہمارے یہ ہی مہربان اورقدردان تھپکی دے کر جہاد کے لئے تیار کرواتے تھے، مسلمان ہمیشہ ماضی پرفخر اورفکر کرتا ہے اس لئے وہ حکایت پر ایمان اور حق پر یقین رکھتا ہے اب بھی ملک پرقابض گروہ اورملک کے نظام کو چلانے والے ملازم اپنے اپنے مفادات کے لئے پورے ملک کو داؤپر لگا رہے ہیں۔ ملک کا خزانہ خالی ہے مگر ملک کے ملازم اور ریاستی مالک امیر وکبیر ہیں ایسے میں ایک پرانی کہاوت بالکل سچ دکھائی دیتی ہے ”جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجارہا تھا“ پورا پاکستان بدانتظامی اور مالی بدحالی کا شکار ہے اور ریاستی ممالک پسند کا راگ بجانے میں مصروف ہیں۔ ان کاراگ عوام کے لئے روگ بن گیا ہے، وہ اپنی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ وہ خودپسندی کے وہم میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں جمہوریت کی راگنی بڑی بے سری اور بے وقت لگتی ہے مگر جب من صاف نہ ہو اور آپ غضب اور انتقام پر یقین رکھتے ہوں تو جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ۔ آپ کا منشور اور منصوبہ ہوتا ہے۔
ایسے پرآشوب دور میں لوگوں کا نظریات سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔ شاید ایسے ہی حالات میں یہ شعر بھی کہا گیا تھا:
پھر بھی ہم سے گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
ہمارے ملک میں وفادار اور دلدار دونوں ہی بدل چکے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے جب اسلام آباد میں قافلہ قادریہ کے سرخیل سے ملنے کے لئے سرکاری لوگ آئے تو ان میں مشاہدحسین ذراانوکھے لگے۔ وہ ایک عرصہ تک فوج کی حفاظتی قید میں رہے۔ ان کے آج کل پاکستان کی افواج کے کماندارسے خصوصی تعلقات ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”لوٹو تے پھوٹو“ اب کیا یہ نظریہ باطل قرارپایا، یا سید صاحب نے تاریخ کے جبر سے نظریہ بدل لیا۔ مذاکرات کے لئے دوسری طرف سے شرکت کی۔ خیر یہ کوئی نئی تاریخ تھوڑی ہے۔ اس لئے تو مسلمان ماضی میں رہتا ہے اور ماضی سے نکلتا نہیں پھر جس اعلیٰ شخصیت نے ”مذاکراتی ٹیم“ روانہ کی تھی ایک دفعہ پھرمعاہدہ طے پا گیا ہے مگر ابھی تک سید صاحب کی طرف سے فرمودات نہیں آئے۔ اعتزاز احسن نے فرمایا ہے کہ اس معاہدے کی آئینی حیثیت ہے۔ اعتزاز احسن بھی بڑے سادہ منش صاحب نظر ہیں۔ جب سپریم کورٹ کے فیصلوں کوآئینی لوگ آئین کے تناظر میں بے توقیر کرتے ہوں تو آپ کو سچ کا الاپ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
بات ”آواز دوست“ سے شروع ہوئی تھی جس میں دوسرا مضمون ہے ”قحط الرجال“ کتاب کا دیباچہ مختصر سا ہے جس میں درج ہے کہ ”اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ ایک طویل اور دوسرا طویل تر، ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکر فردا ہے اور خون سے ”خون تمنا“ اس سے لے کر اب تک ہم سب قحط الرجال کے دور میں جی رہے ہیں۔ بیوروکریسی کے سرخیل لوگوں میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر بڑے نمایاں رہے۔ قدرت اللہ شہاب کی کتاب ایک عرصہ تک نمایاں رہی مگر اب کتاب کے بارے میں تکنیکی ردعمل نظر آ رہا ہے اور ایسا ہی تضاد الطاف گوہر کی سوچ اور فکر کے حوالے سے قابل توجہ ہے۔ اس کتاب کے خالق جو سوچتے رہے اور لکھتے رہے وہ ماضی کا مرثیہ اور المیہ ہے۔ آئندہ کی فکر کوئی بھی صاحب علم نہیں دیتا۔ سید سبط حسین نے ترقی پسند ہونے کے ناطے جب ”ماضی کے مزار“ لکھی تو ایک تعبیر کی نوید ملی مگر ہمارا سماج صاحب کتاب تو ہے مگر صاحب رائے نہیں ہے۔ کتابیں لوگوں کی زندگی بدل دیتی ہیں مگر ہمارے ہاں کتاب لکھنا شوق مسرور ہے مگر اس کا پالن کرنا ہمارا ایمان نہیں، میں جب اب پڑھتا ہوں تو پریشانی اس لئے ہوتی ہے کہ ماضی میں ہم کب تک زندہ رہیں گے، وہ زندگی تو نہیں۔ زندگی تواصل میں حال اور مستقبل ہے حال کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ کتاب ایسی ہو جوزندگی کی امید دلاتی ہو جوآپ کے حق کاپتہ دیتی ہو ۔ جو آپ کو سچ کی تلاش کے لئے تیارکرتی ہو ہم کو سچ کا معلوم ہے مگر ہماری تلاش بے عمل ہے اس دنیا میں لفظوں کی اہمیت ہے ان کا پاس ضروری ہے۔
میں کیسے جیوں گر یہ دنیا ہر آن نئی تصویر نہ ہو!
یہ آتے جاتے رنگ نہ ہوں اور لفظوں کی تنویر نہ ہو!
تازہ ترین