• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدامنی، شہریوں کے سفاکانہ قتل اور علمائے کرام کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف کراچی میں جمعہ کو وفاق المدارس کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی۔ انہی دنوں بدامنی کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بھی کراچی میں جاری قتل و غارت پر حکمرانوں کی عدم توجہ اور بے عملی کو تلخ اور ترش ریمارکس سے نمایاں کرتا رہا۔ کراچی میں روزانہ پندرہ سولہ افراد کا قتل معمول ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر مرنے والوں کے اعزاء و اقرباء کی گریہ و زاری، تشدد زدہ لاشیں، ایمبولینسوں کے سائرن اور اسپتال کی جانب رواں اسٹریچر روز نظر آتے ہیں لیکن حکومت، بڑے بڑے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں سب سسٹم کی بقا اور جمہوریت کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ تقریباً 22 ہزار 535 مفرور اور اشتہاری ملزمان شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔2011ء میں 1800 شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ 2012ء میں 2300 لوگ اپنی جانوں سے گزر گئے لیکن کسی کو انسانی جانوں کے اس زیاں کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں۔ سپریم کورٹ توجہ دیتی ہے،کراچی میں سماعت کا آغاز کرتی ہے۔ سخت ترین ریمارکس پاس کرتی ہے تو کچھ ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ مسئلے کے حل کی صورت نظر آتی ہے مگر فرض کیجئے بارگاہِ خداوندی میں ہاتھ پھیلائے کسی ستم رسیدہ کی دعا یا سپریم کورٹ کی پیہم کوششوں کے نتیجے میں پولیس، رینجرز، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں تمام تر صلاحیتوں اور قوت کے ساتھ مجرموں کے خلاف سرگرم ہو جاتی ہیں۔ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد گرفتار کر لئے جاتے ہیں اور موثر قانونی کارروائی کے باعث سپریم کورٹ سے موت کی سزا بھی پاجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔اس کے بعد ہوگا یہ کہ تمام لوگ صدر صاحب کے حضور رحم کی درخواست فائل کریں گے اور پھر آرام کی نیند سو جائیں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ صدر مملکت ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں، بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کرنے والوں اور ڈاکوؤں کو موت کی سزا دینا پسند نہیں کرتے۔ مملکت خداداد پاکستان میں قصاص کے حکم پر عمل نہیں کیا جا رہا حالانکہ اس سرزمین کی اساس اللہ ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے”ہم نے قصاص میں تمہارے لئے زندگی رکھی ہے“۔ قاتل کو سزائے موت اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔ ریاست پابند ہے کہ اس حکم پر عمل کرے۔ مقتول کے لواحقین اگر قاتل کو معاف کرنے پر تیار نہیں تو حکومت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر دے یا موت کے علاوہ کوئی اور سزا دے سکے۔ حکومت اس بات کا اختیار بھی نہیں رکھتی کہ لواحقین قاتل کو معاف کر دیں اور حکومت اس کو سزا دے دے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 45/اس واضح اور قطعی حکم خداوندی سے متصادم ہے اور صدر کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ کسی عدالت یا اتھارٹی کی جانب سے دی گئی سزا معاف کر سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے سکینہ بی بی بنام فیڈریشن میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ حدود اور قصاص کے مقدمات میں دی گئی سزا کی معافی کا اختیار صدر کو حاصل نہیں۔
سپریم کورٹ کسی شخص کو مجرم قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کسی بھی اعتبار سے رعایت کا مستحق نہیں ہے پاکستان میں 800کے قریب افراد ایسے ہیں جنہیں عدالتیں پھانسی کی سزا سنا چکی ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان کے مقدمے ختم ہو گئے ہیں لیکن صدر مملکت نے ان کی پھانسی کا حکم جاری نہیں کیا۔ شرعی اور قانونی زاویہ نظر کے بعد اگر ہم سماجی پہلو سے سزائے موت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جرم سے نفرت ہر انسان کی فطرت میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر قانون میں انسان کی جان ومال اور عزت کے تحفظ کیلئے سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں ہمارے عہد کی غالب تہذیب مغرب کی فضائے جدید میں موت کی سزا کو انسانی اکرام کے منافی تصور کیا جا رہا ہے۔ وہاں اس معاملے میں دو آراء پائی جاتی ہیں لیکن غلبہ ان لوگوں کو حاصل ہے جو موت کی سزا کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں، معاشرے، قانون ساز اداروں اور پارلیمان میں اس سزا کے خاتمے کیلئے متحرک ہیں اور اکثریت کی بنیاد پر اس سزا کو ختم کرانے کی کوششوں میں کامیاب ہیں۔ یہ جمہوریت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجائے انسانی عقل اور اکثریت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اوریہ بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ اگر قاتل کے دل سے سزا کا خوف ختم ہو گیا تو جرائم میں اس قدر اضافہ ہوگا کہ انسانی بستیوں کو سنبھالنا نا ممکن ہو جائے گا۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ جب ایک مجرم کو سزا دی جاتی ہے تو معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سعودی عرب، ایران اور طالبان کے عہد کی مثالیں تو رہنے دیجئے کہ ہمارے مغربی سیکولر دانشوروں پر گراں گزرتی ہیں امریکہ کی مثال لے لیجئے، امریکی ریاست ٹیکساس نے 1980ء میں پھانسی کی سزا پر سختی سے عملدرآمد شروع کیا وہاں1995ء سے2000ء تک ہر سال اوسطاً71قاتلوں کو پھانسی دی گئی وہاں ان برسوں میں قتل کے واقعات میں50فیصد کمی آئی۔ امریکہ ہی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ایک پھانسی کی سزا سے پانچ افراد کم قتل ہوتے ہیں۔ ایک دوسری تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایک قاتل کو پھانسی دی جائے تو اٹھارہ افراد قتل ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے فرمان قصاص میں تمہارے لئے زندگی کا یہی مفہوم ہے کہ اگر قاتل کو قتل کے جرم میں موت کی سزا دی جاتی رہے تو پھر معاشرے میں امن فروغ پاتا ہے جو زندگی کی ضمانت ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں بھی ہم اپنے عمل سے یہی ثابت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چھ برسوں میں کسی ایک قاتل کو سزائے موت نہیں ہوئی سوائے ایک کے جسے فوج کے دباؤ پر پھانسی کی سزا دی گئی۔ جمہوریت کے علمبردار ہر اس بات کا انکار کرتے ہیں جو اللہ کا قانون ہے اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے شہر اور بستیاں قاتلوں کے نرسریاں بنی ہوئی ہیں۔ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور کسی کے قابو میں نہیں آرہے۔ ان قاتلوں سے نمٹنے اور اپنی بستیوں میں امن و امان کے قیام کے لئے ہم ہر تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ پولیس کی نفری میں اضافے کی بات کی جا رہی ہے، شہروں کو ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کی قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ رینجرز کو بااختیار بنایا جائے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید متحرک کیا جائے، آفت زدہ شہروں کو فوج کے حوالے کیا جائے، موجودہ قوانین کو سخت کیا جائے، نئی قانون سازی کی جائے غرض ہر آپشن، ہرنقطہٴ نظر زیر بحث لایا جا رہا ہے لیکن اگر کسی طرف نہیں دیکھا جا رہا تو وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات اور اس کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جو زندگی کی ضمانت ہیں اور جن سے معاشرے میں امن و امان پروان چڑھتا ہے لیکن ہم تو قاتلوں کی محبت میں گرفتار ہیں۔ میرے قاتل میرے دوست۔
تازہ ترین