• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی کا دورہ ہیوسٹن، پاکستانی اور کشمیریوں کا احتجاجی پروگرام

مودی کا دورہ ہیوسٹن، پاکستانی اور کشمیریوں کا احتجاجی پروگرام


امریکہ کے چوتھے بڑے شہر ہیوسٹن میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 22 ستمبر کو ہیوسٹن کے این آر جی ارینا میں ہاؤڈی مودی جلسے اور پروگرام کے انعقاد کے سلسلہ میں یہاں پاکستانی اور بھارتی باشندوں کے درمیان جنگ کا سا سماں ہے۔

بھارتی نژاد امریکی، وزیراعظم مودی کے استقبال جبکہ امریکہ میں مقیم بھارتی اقلیتوں پر مشتمل سکھ اور کشمیری مسلمانوں نے ان کی آمد پر زبردست احتجاج اور مظاہرے کا پروگرام تشکیل دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مودی کے اس پروگرام میں شرکت کے اعلان کے بعد یہاں پر سیکیورٹی انتظامات سخت کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں، جس کے باعث مظاہرین نے میئر کے ساتھ مل کر متبادل حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

مظاہرین کی نمائندگی کرنے والے سات رکنی وفد نےجس میں ہارون شیخ، ایم جے خان، سعید شیخ، سجاد برکی، سہیل سید، ظفر طاہر اور مبشر شامل تھے،  نے آج میئر ہیوسٹن سیلویسٹر ٹرنر سے ملاقات کی اور ان کی توجہ تحریر و تقریر کے بنیادی حق کی طرف مبذول کراتے ہوئے ان سے تعاون کرنے کا مطالبہ کیا۔

تاہم امریکی صدر کی وجہ سے حفاظتی انتظامات سخت ہونے کے باعث فیصلہ کیا گیا کہ مظاہرین کو این آر جی اسٹیڈیم کے دوسری جانب واقع کربی اسٹریٹ پر احتجاج کی اجازت ہوگی اور یہ علاقہ احتجاج کرنے والے افراد کیلئے وقف کیا جائیگا، جبکہ دوسری اسٹریٹ استقبال کرنے والے افراد کیلئے ہوگی۔

پروگرام میں شرکت کے لیے 50 ہزار افراد نے رجسٹریشن کے ذریعے اپنا نام شامل کرایا ہے، جبکہ منتظمین کا کہنا ہے کہ مزید ایک لاکھ افراد ویٹنگ لسٹ میں اپنا نام رجسٹر کرا چکے ہیں۔ تاہم پروگرام میں شرکت کیلئے صرف پچاس ہزار افراد کو ہی الیکٹرانک پاس جاری کیے جائیں گے جبکہ ہزاروں افراد ارینا کے باہر استقبال کرینگے۔

دوسری جانب ہندوستان میں آباد دیگر مذہبی اقلیتیوں اور غیر ہندوؤں پر مشتمل کئی ہزار مظاہرین مودی کی جانب سے بھارت میں اقلیتوں پر مظالم  اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے اور کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرینگے۔ اس مظاہرے میں پاکستان اور بھارت دونوں اطراف کے کشمیری، سکھ اور بھارت میں آباد مسلم اقلیتی کمیونٹی کے وہ افراد شامل ہوں گے جوکہ یہاں مقیم ہیں۔

ہیوسٹن میں موجود سکھ کمیونٹی اس ضمن میں انتہائی متحرک کردار ادا کر رہی ہے، اس سلسلہ میں سکھوں نے احتجاج کی باقاعدہ مشقیں کرکے ایک ریلی بھی نکالی، فرینڈز آف کشمیر کی غزالہ حبیب کا کہنا ہے کہ ڈیلس سے تیس بسیں جب کہ آسٹن سے چھ اور لوزیانا، سیان اینٹونیو، اوکلوہاما سے ایک ایک بس اس احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہیوسٹن سے باہر رہنے والے 5 ہزار سے زائد مظاہرین کی مظاہرہ میں شرکت متوقع ہے، جبکہ بسوں اور دیگر اخراجات کے سلسلہ میں آئل بزنس ٹائیکون سید جاوید انور اور ڈیلس سے عابد ملک نے مالی معاونت فراہم کی ہے، سید جاوید انور نے گذشتہ دنوں عمران خان کے جلسہ کا بھی سارا خرچہ ادا کیا تھا جوکہ کئی لاکھ ڈالر تھا۔

دریں اثنا کشمیری رہنما یاسین ملک کے دست راست سینئر کشمیری رہنما راجہ مظفر کشمیری کا کہنا ہے کہ دیگر ریاستوں سے بھی مظاہرین ہیوسٹن پہنچیں گے ، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ضمن میں پاکستانی کمیونٹی کے بعض لیڈران متحد ہونے کے بجائے کشمیر کی آڑ میں اپنی لیڈری چمکانے اور بعض چندہ اکٹھا کرنے کے مشن میں سرگرم ہیں۔

دوسری جانب سکھ فار جسٹس اور ریفرنڈم ٹوئنٹی ٹوئنٹی تنظیموں کے زیر اہتمام بھی سکھ کمیونٹی شرکت کررہی ہے، سکھ کمیونٹی رہنما گر پتوند پنین پنوں سنگھ، اوتار سنگھ ،سرویندر سنگھ، ہاردم سنگھ آزاد اور دیگر سکھ کمیونٹی رہنما مشترکہ طور پر اس سلسلہ میں مصروف عمل ہیں۔

پاکستانی نژاد امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما طاہر جاوید اور اٹارنی نومی حسن کی جانب سے حال ہی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں سینٹرز اور اراکین کانگریس کو اپنے گھروں پر مدعو کرکے کشمیر سے متعلق بیانات دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس میں سابق امریکی نائب صدر اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن جبکہ دوسرے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز، کاملہ ہیرسن اور دیگر شامل ہیں۔ جنہوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انسانی حقوق سے متعلق مسائل کے حل کا مطالبہ کیا تھا۔ جسکی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں اس مسئلے کو بڑی حد تک اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے۔

جبکہ چھ امریکی سینیٹرز اور کانگریس کے اراکین نے امریکی وزیر خارجہ کو کشمیر سے متعلق خط بھی تحریر کیے ہیں، امریکی کانگریس میں پاکستانی کاکس کی چیئرمین شیلا جیکسن نے بھی اس طرح کا خط تحریر کیا ہے،  پاکستانی کمیونٹی کے افراد کو اس امر پر تشویش ہے کہ رکن کانگریس شیلا جیکسن اور کانگریس مین ال گرین اور میئر ہوسٹن سیلویسٹر ٹرنر جوکہ براہ راست پاکستانی امریکیوں کے ووٹ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں اور مالدار پاکستانی ان کو انتخابی فنڈز بھی فراہم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں مگر  اس کے باوجود ان کی جانب سے مودی کے پروگرام میں شرکت ان کے لیے باعث تشویش ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ شیلا جیکسن نے کمیونٹی رہنما طاہر جاوید کو کہا ہے کہ وہ اس پروگرام میں جاکر دونوں جانب بات چیت کے لیے مددگار ثابت ہونگی۔ کیونکہ اس مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

دوسری جانب شیلا جیکسن نے کل اپنی جانب سے خط کے ذریعے وزیر خارجہ کی توجہ کشمیر کی صورتحال پر پر مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور آپ اس مسئلے کے فوری حل کیلئے بات چیت کریں۔

دوسری جانب کانگریس وومن اور امریکی صدارتی ٹکٹ کی خواہشمند امیدوار تلسی گبارد نے مودی کے جلسہ میں شرکت سے معذرت کرلی ہے، جبکہ کانگریس میں ساؤتھ ایشین اور انڈین کا کس کے چیئرمین بریڈ شرمن نے بھی کہا ہے کہ وہ مودی کے اس پروگرام میں شرکت نہیں کریں گے , تاہم امکان ہے کہ اس جلسہ میں پچاس سے زائد امریکی سینٹرز اور کانگریس کے اراکین شرکت کرینگے۔

‎ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مودی کے اس پروگرام میں شرکت کو یہاں بھارتی ہندو کمیونٹی دوستانہ جبکہ دیگر اقلیتی کمیونٹی ٹرمپ اور مودی کیمسٹری کو ایک جیسا قرار دے رہے ہیں۔ تاہم یہ کافی عرصہ بعد پہلا جلسہ ہوگا کہ امریکی صدر کسی غیر ملکی لیڈر کے جلسے میں شرکت کرینگے، اس سے قبل اسطرح کا بڑا اجتماع پوپ کے آنے پر ہوا تھا۔

‎ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات اور معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لیے ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کا دورہ کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ میکسیکو ،چائنا ، برازیل کے بعد ہیوسٹن بھارت کا چوتھا بڑا تجارتی پارٹنر ہے جہاں سے تیل اور گیس کی کمپنیوں کے ساتھ بھارت اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا منصوبہ تشکیل دے رہا ہے۔

تازہ ترین