• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا …راجہ اکبردادخان
بھارتی حکومت نے 5ستمبر کے فیصلے کی بنیاد پر اپنے آئین کی دو اہم شقوں (370اور 35اے) کو ختم کر کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے تسلی بخش طریقے سے نمٹنے کیلئے طرفین اور برٹش امپائر آفس کے اس وقت کے کاغذات کو دیکھنے کی ضرورت ہے جس کہ تحت مہاراجہ ہری سنگھ جموں وکشمیر کا حکمران تھا اور بھارت کے ساتھ کن حالات میںریاست جموں وکشمیر کا الحاق ہوا؟ الحاق ہوا یا نہ ہوا، متضاد ثبوتوں کی ایک کہانی ہے جسے گہری نظر سے دیکھے بغیر مسئلہ کا دائمی حل تلاش کرنا ممکن نہیں۔یقیناً تمام ضروری انفارمیشن کامن ویلتھ آفس اور برطانوی حومت کی Archivesمیں موجود ہیں۔ بھارتی آئین کی ان شقوں کے تحت مقبوضہ کشمیر والوں کو ریاست کے اندر ملازمتوں اورجائیداد کی خریدوفروخت کے حوالے سے تحفظ حاصل تھا اور ریاست جموں وکشمیر کو بین الاقوامی سطح پر متنازع خطہ (Disputed Terrority)تسلیم کیا جا چکا تھا۔ مسئلہ اپنے حل کیلئے اقوام متحد کی سیکورٹی کونسل میں موجود ہے۔ جہاں چند ہفتے قبل ہی اس پر بحث ہوئی اورکونسل ممبران نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحا ل تشویش کا اظہار کیا۔ مسئلہ پر سیکورٹی کونسل کی کئی قراردادیں بھی موجود ہیں۔ تقسیم ہند کے موقع پر بھارت خود اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ میں نے ایک حد تک اس احتجاجی تحریک کا حصہ ہوتے ہوئے مختلف وقتوں میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رویوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ روزنامہ جنگ لندن اور دیگر اردو چینلز اس بات کے گواہ ہیں کہ چھوٹے بڑے موقع پر دونوں باتوں پر بالخصوص توجہ دلاتا رہا کہ ہماری کمیونٹی کو کشمیر ایشو پر ایک چھتری تلے جمع ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے، دوسری جانب اس طرف دلاتا رہا کہ اس مغربی معاشر ہ میں ہمارے پیغام ان لوگوں تک انگریزی زبان میں پہنچ کر ہی کارآمد ہو سکتے ہیں۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کو پذیر ائی ملنے میں 50برس گزر گئے۔ لندن کے دو حالیہ مظاہروں میں کسی نہ کسی شکل میں مجھے اپنی تجاویز جگہ بنانے میں کامیاب ہوتی نظر آئیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں اور مولویوں کا ایک طبقہ اس زرخیز زمین پر اس طرح قابض ہو چکے ہیں کہ کشمیر جیسے قومی ایشو پر بھی کوئی کسی کو ایک انچ جگہ دینے کو تیار نہیں۔ لوگوں کی جماعتوںکے ساتھ گہری وابستگیاں کیونکہ جماعتوںکے لئے مالی مدد فراہم کرتی ہیں سیاسی قدوکاٹھ بھی اوپر اٹھتا ہے۔ جماعتی اختلافات کو زیادہ سے زیاد ہ ہوا ملتی رہی ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے کئی کشمیر سینٹرز بھی کھلوائے (کچھ اب بھی کھلے ہیں)جو کچھ ڈلیور نہیں کر پائے ہیں اور بدقسمتی سے ریاست کو قوم کے ان وسائل کا ضیاع چار دہائیاں گزرنے کے بعد نظر آیا؟ پہلے تو ریاست طویل وقت تک اس ایشو پر سوتی رہی جس انداز میں قومی حمیت اب تحریک آزاد ی کشمیر سے جڑی نظر آرہی ہے مثلاً سیکورٹی کونسل کو نیند سے جگا دینا۔ دنیا بھر میں وفود بھیج کر کشمیر میں بھارتی ظلم اور بربریت سے آگا ہ کرنا اور اہل انداز میں بھارتی الزام تراشیوں سے نمٹنا وہ ماحول ہے جو حکومت کو نہایت مختصر وقت میں تیار کرنا پڑا ہے ایک ماہ سے زیادہ کرفیو اور میڈیا سہولتوں سے محروم کشمیریوں کی آواز بن جانا مثالی سفارت کاری ہے۔ پاکستان پچھلے دس برس سے مشکل حالات میں گھرا ہوا ہے۔ ہمارے مخالفین کا سب سے بڑا ہدف ہمارے ایٹمی اثاثہ جات ہیں، دشمن ملک ہماری اقتصادی ناہمواری اور سیاسی اور اور مذہبی تقسیم سے فائد ہ اٹھانے کی فکر میں جو جنگجویانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے وہ ہر پاکستانی کیلئے تشویش کا باعث ہے۔
اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزیشن کو اس مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اپوزیشن میں بھی کئی محب الوطن پاکستانی رہنما موجود ہیں۔ قوم ان کے سامنے آنے کی منتظر ہے؟۔حزب اختلا ف کیلئے اہم ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہوجائے۔ مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت اور کانگریس سے جڑے اہم کشمیری رہنما جن میں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی دو سابق وزرائے اعلیٰ شامل ہیں تمام نے بھارتی آئین کی شقوں 370اور 35aکی منسوخی کو رد کر دیا ہے۔ بھارت نواز یہ لیڈر اور کئی دیگر طویل عرصے سے کشمیرکی غیرتسلی بخش صورتحال پر دہلی سرکار کی توجہ دلاتے رہے ہیں۔ یہ لیڈر شپ بھی نظربند ہے جب ریاست کے تمام گروپ (الحاق پاکستان، الحاق بھات اور خود مختار کشمیر کے حامی لوگ) اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ موجودہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ ناقابل قبول ہے جسے مکمل آزادی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کے اندر تحریکی ماحول بھی اسی سمت آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ مظاہرے بھی کئی نسبتیں میں ماضی سے مختلف ہیں۔ موجودہ ماحول میں ہماری برطانوی سیاسی قیادت کو بھی ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نعرے انگریزی زبان میں اٹھنے چاہئیں۔ہمارا لٹریچر بھی تیاری کے بعد منظر عام پر آنا چاہئے۔ 3ستمبر کے احتجاج میں ہمارے نعروں نے کئی کنفیوژن پیدا کردیئے۔ مثلاً ہمارا یہ بڑااجتماع جو آزاد کشمیر ی اور پاکستانی کمیونٹی نے ترتیب دیا۔ اس میں نعرے کچھ اس طرح کے ہونے چاہئے تھے کہ ’’یہ اجتماع کیا مانگتا ہے؟ جواب۔ بھارتی کشمیر کی آزادی۔ ایسے نعرے کہWhat We Want?کا جواب تھا یہ ہونا چاہئے تھا۔ Freedom for Indian Occupied Kashmir.آزادی کس سے چاہئے۔ یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے جب ہم یہ کہہ رہے تھے کہ We Want Freedom for Kashmirتو ہم یہ واضح نہ کر سکے کہ یہ آزاد کشمیری ہجوم مقبوضہ کشمیر کی آزاد ی کی بات کر رہا ہے۔ ہمارے دشمن اس ہجو اور اس نعرے کو ملا کر ایک ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ ہجوم کس طرح پاکستان سے آزادی مانگ رہاتھا؟ لائن آف کنٹرول کے اس طرف کے باسی پہلے ہی آزاد ہیں۔ ایک ایوریج انگریزی سمجھنے والا برٹش پرسن سر کھجانے لگ جائے گا کہ یہ ہجوم کس سے آزادی مانگ رہا ہے؟ میرے سامنے ہمارے پُرجوش ملے جلے نعروں نے ماحول کو گرما رکھا تھا۔ تو دو انگریزی ٹی وی رپورٹرز نے مجھ سے پوچھاکہ یہ ہجوم کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ میرا جواب تھا کہ یہ ہجوم بھارتی کنٹرولڈ کشمیر کی آزادی مانگ رہا ہے۔وہ جاتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ ایسے نعروں سے بالکل واضح نہیں ہو رہا کہ مظاہرین پاکستانی کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں یابھارتی کشمیر کی ؟۔ دوسرے بڑے لندن مظاہرے میں بھی لوگ جوق در جوق آئے۔ مستقبل میں کوشش کی جائے کہ شرکاء کے نعروں کو انگریزی زبان میں برطانوی لوگوں کے سامنے رکھاجائے جب کہ کئی ممالک میں اس ایشو پر بالآخر حل تلاش کئے جا رے ہیں۔پاکستان کو کشمیری قیادت کے ساتھمل کر اچھی ڈیل حاصل کرنی ہوگی۔5ستمبر کے بھارتی اقدام جس میں انہوں نے ریاست جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارتی یونین کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس ایشو کی آئینی حیثیت تبدیل ہو کر Pre-1947پر چلی گئی ہے۔ نئی صورتحال سے کس طرح نمٹنا ہے؟ کشمیری اور پاکستانی قیادت کیلئے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی جسے استعمال کرتے ہوئے ایک متحدہ کشمیری حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ اس طرح کا حل کشمیری اور پاکستانی قیادت کیلئے قابل قبول ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک پاکستان ہمدرد ’’فری کشمیر‘‘ ہم سب کی منزل ہونی چاہئے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حل عوام کیلئے قابل قبول نہ ہو گا۔
تازہ ترین