محمد صادق کھوکھر۔۔۔ لیسٹر قیادت حکمت و دانائی، عزم واستقلال اور رہنمائی کا نام ہے۔ قائد کا ایک وژن ہوتا ہے نظریہ اور سوچ ہوتی ہے۔ قیادت ہوا کے رخ پر اڑ جانے یا پانی کے رخ بہہ جانے کا نام نہیں بلکہ رخ موڑدینے کا نام ہے۔ سچا قائد عوام کو سبز باغ نہیں دکھاتا وہ عوام کے پیچھے نہیں چلتا بلکہ وہ عوام کی غلط سوچ تبدیل کرکے ان میں یکسوئی اور اعتماد بھی پیدا کرتا ہے۔ عوام کو منزلِ مقصود کی طرف گامزن کرنے کے لیے انہیں صرف آمادہ ہی نہیں کرتا بلکہ سالارِ قافلہ بن کر قافلے کو لے کر منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ اور پھر وہ منزل کے حصول کے لیے ہنسی خوشی سب کچھ سہتا اور برداشت کرتا ہے لیکن منزل کھوٹی نہیں ہونے دیتا۔ مقبوضہ کشمیر کے ضعیف العمر ممتاز حریت پسند رہنماسید علی گیلانی انہی صفات کے مالک ہیں۔ وہ مسلسل کئی برسوں سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ عمر کے اس پیٹے میں لوگ چارپائی سے لگ جاتے ہیں لیکن سید علی گیلانی آج بھی نوجوانوں کی طرح متحرک ہیںاورآج بھی قافلہ آزادی کے ہراول دستے کے سالارِ اعلیٰ ہیں۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پوری طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے عزم و استقلال میں کوئی لغزش نہیں ہے۔ مجھے ایک دفعہ ان کے بیٹے نے بتایا کہ کشمیر میں وہ کسی مقام کے دورے پر تھے۔ کوئی بھارتی میجر آکر ان سے پوچھتا ہے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ سید گیلانی ان کی بات سن کر پھٹ پڑے کہنے لگے کتوں کی طرح ہر وقت پیچھا کرتے رہتے ہو اور پھر پوچھتے ہو کہ کوئی تکلیف تو نہیں؟ تم ہمارا کشمیر چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ وہ دم بخود ہوکر رہ گیا اوراپنے ساتھیوں کے ساتھ چلتا بنا۔ بھارت کے دانشور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیریوں کے ہاں سید علی گیلانی کا کیا مقام ہے۔ لندن میں چند برس قبل ایک کشمیر کانفرنس میں بھارت کے مشہور دانشور گوتھم نولکھاسامعین سے مخاطب تھے۔ وہ کہہ رہے تھےکہ کشمیری بار بار موقف تبدیل کرنے والے کو گاس نہیں ڈالتے۔ کشمیری سیاست میں شیخ عبداللہ کا بڑا مقام تھا لیکن جب انہوں نے اپنا موقف بدلا تو کشمیریوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس سید علی گیلانی، شبیر شاہ اور یاسین ملک کا ایک مقام ہے۔ کشمیری ان کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ چٹان کی طرح اپنے موقف پر قائم ہیں۔ انہوں نے ہر حال میں ثابت کیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں جھکا نہیں سکتی۔ سید علی گیلانی کئی بار جیل گئے انہوں نےمجموعی اعتبار سے تیس سال سے زیادہ عرصہ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزارا ہے۔ سب سے پہلے وہ 1962 میں گرفتار ہوئے۔ اس وقت وہ تیرہ ماہ پابندِ سلاسل رہے اسی زمانے میں ان کے والد محترم کا انتقال ہوا۔ پسِ دیوارِزنداں ہونے کے باعث وہ ان کی تجہیزو تکفین میں شریک نہ ہو سکے پھر وہ درجنوں بارگرفتار ہوئے۔حتیٰ کہ ان کی بیٹی کی شادی بھی اسی حالت میں ہوئی وہ رخصتی کے وقت شامل ہونا چاہتے تھے۔ حکومت بھی انہیں پیرول پر رہا کرنے کے لیے تیار تھی۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ جیل کے باہر کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی بات نہیں کریں گے لیکن سید علی گیلانی نے ان کی پیش کش ٹھکرا دی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کی خاطر کتنی بیٹیاں قربان ہو چکی ہیں کتنی بیٹیوں کے سہاگ اجڑ چکے ہیں اگر میں اپنی بیٹی کی رخصتی کے وقت موجود نہیں تو کوئی بات نہیں میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ اسی حال میں ان کی بیٹی کی رخصتی ہوتی ہے لیکن ان کی قوتِ ارادی، جدو جہد اور موقف میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ بھارتی ظلم و ستم کی داستان بڑی طویل ہے انہیں گزشتہ سترہ برس سے عید کی ایک بھی نماز مسجد میں ادا کرنے نہیں دی گئی کیونکہ بھارتی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ حالات ان کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ وہ ایک بلند پایہ اور شعلہ بیان مقرر ہیں۔ وہ اپنی بات بڑی بےباکی، سلیقے اور جرأت مندی سے کہتے ہیں۔ لیکن ان کی تقاریر میں اخلاص اور درد مندی کا بے پناہ جذبہ بھی موجزن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تقاریر سے بڑے بڑے لوگ متاثر ہو کر ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔کشمیری رہنما غلام محمد صفی ان کے سخت مخالف تھے۔ اپنے ساتھیوں کا جتھہ لے کر ان کا جلسہ خراب کرنے گئے تھے۔ جب وہ جلسہ گاہ پہنچے تو سید علی گیلانی کی تقریر ہو رہی تھی۔ تقریر کیا تھی اخلاص و درمندی اورجرأت و بے باکی سے لبریز ایک سیلِ رواں تھا۔ جس سے غلام محمد صفی اور ان کے ساتھیوں کی کایا پلٹ گئی اور آخر کار وہ بھی اس تحریک سے منسلک ہو گئے۔ جب وہ سنگینوں کے سائے میں لاکھوںکے مجمع میں پاکستان سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں تو لوگوں پر وجد طاری ہو جاتا ہے اور وہ پکار اٹھتے ہیں۔ کہ "ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے"۔انہوں نے آزادی کی دیگر تحریکوں کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ تحریکیں کیسے ناکام ہوتی ہیں اور انہیں کس طرح کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ وہ حریت کانفرنس کے قائدین میں سے ہیں انہوں نے خود حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ میر واعظ عمر فاروق کو قیادت کے منصب پر فائز کیا لیکن جب دھیرے دھیرے میر واعظ صاحب کا لب ولہجہ دھیما پڑنے لگا۔ تو انہوں نے اپنا پلیٹ فارم الگ کر لیا اور پھر بلند آہنگ سے حقِ خود ارادیت کا علم بلند کرنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ پھر رائے شماری پر زور دینے لگے۔ اس طرح انہوں مسئلہ کشمیر میں جان ڈال دی۔ اس وقت آزادی کی تحریک اپنے عروج پر ہے اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو حکمت و دانائی اور تدبرسے لیس ہو۔ مایوسی اور لاپروائی سے کوسوں دور ہو۔ بلا شبہ ہمارے پاس ایسی قیادت موجود ہے جنہوں نے پوری زندگی اسی مقصد کے حصول کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کشمیریوں کی مشکلات دور کرے اور انہیں آزادی کی دولت سے جلد ہمکنار کرے۔ آمین۔