• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے صوبہ پروان میں صدر اشرف غنی کی انتخابی ریلی اور کابل میں امریکی سفارت خانے کے قریب کئے گئے دو خودکش دھماکوں کی وجوہ جو بھی ہوں، جنگ زدہ ملک میں قیام امن کی منزل اتنی قریب نہیں رہی جتنی امریکہ اور طالبان کے درمیان عرصے سے جاری مذاکرات اچانک منقطع کئے جانے سے قبل محسوس ہورہی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ماہ کے اوائل میں طالبان سے جاری مذاکرات منقطع کرنے کا سبب افغانستان میں طالبان کے ایسے حملوں کو بتایا تھا جو ان کے بیان کے مطابق مذاکرات میں پلڑا بھاری رکھنے کیلئے کئے جارہے تھے۔ طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں مذکورہ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بطور خاص انتخابی ریلی کے قریب کئے گئے دھماکے کا جو مقصد بیان کیا گیا اس سے 28ستمبر کو منعقد ہونے والے انتخابات کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس دھماکے میں 26افراد ہلاک اور 42زخمی ہوئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے مگر صدر غنی محفوظ رہے۔ کابل اسکوائر میں کئے گئے دھماکے میں 22افراد زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ افغانستان میں بدامنی کی فضا کا پیدا ہونا یا عدم استحکام کی کیفیت میں اضافہ ہونا اگرچہ پوری عالمی برادری کے لئے تشویشناک امر ہے تاہم اسلام آباد کے لئے اس باب میں فکر مندی کا یہ پہلو بھی مضمر ہے کہ کوئی ملک اپنے قرب و جوار میں عدم استحکام کی صورتحال سے زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرسکتا۔ پاکستان افغانستان کے راستے اپنی سرزمین تک آنے والے جنگ کے شعلوں کے باعث طویل عرصے تک بھاری نقصانات سے دوچار ہو اور بے بہا قربانیوں کے بعد جس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوا اس کی واپسی کے ہر راستے، ہر روزن پر کڑی نظر رکھنا اس کے لئے انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔ افغانستان کے حالات وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے وسیع خطے کو کسی نہ کسی انداز میں متاثر کرنے کا ذریعہ بنے رہے ہیں۔ اس وقت مذکورہ ریجن کا نقشہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو نئی دہلی کے حکمرانوں نے بھارت میں ضٗم کرنے کے اعلان کے ساتھ کرفیو اور 10لاکھ فوجی نفری کے ذریعے سنگین قید خانے بلکہ عقوبت خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو بھی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مغربی کنارے کی فلسطینی آبادیوں پر مشتمل کئی علاقوں میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے فیصلے اور اقدامات کی تقلید کا کھلے بندوں اعلان کرچکے ہیں۔ ایران اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں برسوں سے پھینکے جانے والی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر عالمی برادری، خصوصاً مسلم امہ کو کڑی نظر رکھنا ہوگی اور خطے کے ملکوں کو ہی نہیں پوری دنیا کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانے کے لئے متحرک سفارتکاری بروئے کار لانے پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی امن کے لئے کام کرنیوالے تمام اداروں کو ان ممالک کی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھنی چاہئے جو توسیع پسندانہ عزائم ، اقلیتوں پر مظالم اور پڑوسی ریاستوں میں مختلف انداز سے مداخلت کی تاریخ رکھتے اور کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کو دوسرے ملکوں میں داخل کرکے قتل و غارت کے بازار گرم کرتے ہیں۔ افغانستان میں جلد امن کی بحالی اسلئے بھی عالمی امن کی ضرورت ہے کہ اس سرزمین کو بعض امن دشمن قوتیں دوسرے ملکوں میں اپنے قاتلوں کے ذریعے دہشت گردی کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ جنگ زدہ ملک میں منگل کے روز کئے گئے مذکورہ دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے اسلام آباد نے جو بیان جاری کیا اس کا مقصد یہی پیغام دینا ہے کہ افغان عمل کے حقیقی تقاضوں کو تمام حلقے ملحوظ رکھیں۔

تازہ ترین