• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر توفیق بٹ کے ساتھ ہمارے قلبی مراسم بہت پرانے ہیں۔ انکساری اور غم گساری آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور اسی طرح کے بعض دیگر عمدہ خواص آپ کی شخصیت کا اہم حصہ ہیں۔ تاہم جو چیز تاریخ میں آپ کو دوام بخشے گی وہ آپ کی الوداعی پارٹیاں ہیں جو آپ وقتاً فوقتاً اپنے ریٹائر ہونے والے دوستوں کو دیتے رہتے ہیں۔ بٹ صاحب کی یہ خصلت اس حوالے سے بھی قابل ستائش ہے کہ موصوف عام لوگوں کی طرح چڑھتے سورج کی بجائے ڈھلتے سورج کے پجاری ہیں۔ چنانچہ بٹ صاحب کی نفاستِ طبع کا عالم یہ ہے کہ ہمہ وقت اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی دوست ٹائپ افسر ریٹائر تو نہیں ہو رہا اور کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ خود تو دنیا کے جھمیلوں میں مصروف رہے ہوں اور خدا نخواستہ پیچھے سے کوئی کم نصیب ریٹائر ہو گیا ہو۔ جس طرح چوہدری شجاعت حسین سیاسی فاتحہ خوانی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہر بزرگ سیاستدان کی عیادت کرتے ہوئے اسے نہایت ”پُر امید“ نظروں سے دیکھا کرتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمارے دوست قبلہ توفیق بٹ صاحب بھی ساٹھ کی عمر کو پہنچتے اپنے ہر افسر دوست کو شدید للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ کب اس کا نوٹیفیکیشن آئے اور کب میں ایک عالی شان الوداعی تقریب برپا کر کے اپنے ان مردم بے زار دوستوں کی ناک وغیرہ میں دم کر سکوں کہ جو بیچارے اپنے گھر والوں کو ملنے ملانے سے بھی کتراتے ہیں۔ ایسے دوستوں میں ہم اپنے آپ کو سرفہرست گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُدھر کسی اہم افسر کے ریٹائر ہونے کی خبر آئی اور اِدھر ہماری جان پر بن گئی۔ اخبار پڑھتے وقت جن ”خطرناک“ خبروں کے گرد ہم سرخ مارکر کے ساتھ دائرہ لگاتے ہیں، ان میں ریٹائرمنٹ کی خبریں بھی شامل ہوتی ہیں!
لا ہور کے سابق پولیس چیف اسلم ترین کی ریٹائرمنٹ کا کہنا تو دہری تشویش ہوئی۔ ایک تو یہ کہ بہت عرصے بعد لاہور کو ایک دلیر اور ایماندار پولیس افسر نصیب ہوا تھا اور اس شہر بے اماں کو ابھی اس کی مزید ضرورت تھی مگر ریٹائرمنٹ نے آ لیا اور دوسری تشویش یہی تھی کہ ہمیں اپنے سر پر ایک اور الوداعی تقریب مانند شمشیر لٹکتی محسوس ہوئی اور پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ برادرم بٹ صاحب کا محبت نامہ بذریعہ ایس ایم ایس موصول ہو گیا۔
آج کل شدید کھانسی اور برونکائٹس کے سبب ہماری آواز لاری اڈے کے ہاکروں جیسی ہو چکی ہے چنانچہ جب کچھ نہ کرنے کو دل چاہے تو ہمیں ان دنوں کوئی بہانہ گھڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم متعلقہ شخص کو فون پر ایک آدھ فقرہ بول کر ہی ایسی عبرت دلا دیتے ہیں کہ بیچارہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگتا ہے۔ سوچا کہ بٹ بہادر کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں مگر پھر اسلم ترین کا خیال آ گیا کہ اچھا افسر تو ویسے ہی لاکھوں میں بمشکل ایک نکلتا ہے جبکہ اچھا پولیس افسر تو کروڑوں بلکہ شاید اربوں میں ایک آدھ ہی ہوتا ہو گا۔
وقت مقررہ پر بٹ صاحب کے ہاں پہنچے تو ان کا لان انواع و اقسام کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسروں سے اٹا پڑا تھا۔ جناب احمد نسیم، طارق سلیم ڈوگر اور شیخ اسرار سمیت لاتعداد ریٹائرڈ آئی جی صاحبان کی زیارت نصیب ہوئی۔ زیادہ ترکی الوداعی تقریب ہم نے بھی بھگت رکھی تھی۔ ایک پوری کی پوری قطار ایسے افسروں کی بھی تھی جو ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ انہیں دیکھ کر کچھ سوچا اور پھر ایک جھرجھری سی محسوس کرتے ہوئے ہم سید ارشاد عارف کی طرف لپکے جو کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں کی الگ منڈلی سجائے بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی، جناب عطاء الرحمن اور کارٹونسٹ جاوید اقبال کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ کیپٹن عطاء صاحب ہیں تو افسر مگر بیٹھتے عموماً ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ آپ سے ملاقات بھی ہمیشہ خوشگوار رہتی ہے۔
صحافی وکیل اور ڈاکٹر اس حوالے سے ہمیں بہت پسند ہیں کہ یہ فوت ہونا تو قبول کر لیتے ہیں مگر ریٹائر ہر گز نہیں ہوتے اور اس کام کے لئے انہیں بار بار واشنگٹن ڈی سی کی منت سماجت کر کے ایکسٹینشن بھی نہیں لینی پڑتی جیسا کہ آج کل کلیدی پوسٹوں کے لئے ہوتا ہے۔ ہمارا ملک جب تک ایکسٹینشن کلچر کی لپیٹ میں ہے، بہتری کی امید لگانا عبث ہے۔ البتہ اچھے اور نیک نام افسروں کو ریٹائر ہونے کے بعد بھی کنٹریکٹ پر ضرور ری ایمپلائی کر لینا چاہئے اور اچھے پولیس افسر کو تو ہاتھ سے ہرگز نہیں جانے دینا چاہئے۔ اسلم ترین کے حوالے سے بھی ہمارا مشورہ یہی ہے کہ انہیں فوراً ہی قابو کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ ارشاد عارف صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ ہمارے ایک مشترکہ دوست غلام مصطفی میرانی سول ایوی ایشن کی طویل و عریض سروس سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا مگر اس تصور سے ہی دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ میرانی# صاحب توفیق بٹ کے قریبی دوستوں میں سے نہیں تھے ورنہ ایک الوداعی تقریب مزید بھگتنا پڑ جاتی۔ تاہم ہماری خوشی کافور کرنے کے لئے برادرم ارشاد عارف ہی کافی تھے۔ کہنے لگے، ”اگلے اتوار میرانی# صاحب کے اعزاز میں ایک تقریب برپا ہو رہی تھی مگر آپ کی ”پاٹ دار“ کھانسی کے سبب ہم اسے مزید اگلے اتوار تک ملتوی کر رہے ہیں۔“
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر# مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
تازہ ترین