• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ پری وش

طبقاتی فرق کے باوجود علی اور حمزہ کی دوستی پوری کلاس میں مشہور تھی، جس کی وجہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے مخلص ہونا تھا۔ علی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا تو حمزہ غریب گھرانے سے۔ حمزہ پڑھائی میں ہوشیار ہونے کی وجہ سے کلاس میں ہمیشہ پہلےنمبر پر آتا تھا۔ علی بھی پڑھائی میں بہت اچھا تھا لیکن پھر بھی وہ پڑھائی میں حمزہ سے مدد لیتا تھا، جس کی وجہ سے وہ بھی کلاس میں ہمیشہ دوسرے نمبر پر آتا۔ حمزہ کی طرح علی بھی اکثر اس کی مالی مدد کرتا رہتا تھا، جبکہ حمزہ خوددار لڑکا ہونے کی بنا پہ ہر بار اس سے ایسی مدد لینے سے انکار کرتا لیکن اس کے پرخلوص انداز پر ہار مان جاتا تھا۔

ان کا ہم جماعت فہد ان دونوں کی دوستی سے بہت جلتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان دونوں کی دوستی ختم کروا کے خود علی سے دوستی کرکے اس کے دولت مند ہونے کا فائدہ اُٹھائے۔ وہ حمزہ کا کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ پڑوسی بھی تھا۔

دو دنوں سے حمزہ اسکول نہیں آرہا تھا۔ اس کی غیر حاضری سے علی فکرمند ہوگیا کیونکہ وہ پابندی آنے والاطالب علم تھا، بغیر کسی بڑی وجہ کے وہ چھٹی نہیں کرتا تھا۔ علی فکرمند سا فہد کی طرف گیا اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے حمزہ کی غیرحاضری کی وجہ جاننی چاہی، جس پر فہد نے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئےایک منصوبہ بناڈالا۔ ’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو‘‘؟ علی نے پوچھا۔

’’حمزہ کے لیے تمہاری فکرمندی دیکھ رہا ہوں، جبکہ وہ کل مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھ کر تم پہ ہنس رہا تھا کہ پڑھائی میں تمہاری تھوڑی سی مدد کردینے سے مفت میں ہی اسے کتنی اچھی اچھی اور مہنگی چیزیں مل جاتی ہیں۔ ان چیزوں کی وجہ سے اس کے گھروالے اس پر رشک کرتے ہیں۔ علی جیسے بےوقوف کی دوستی سے وہ تو بڑے فائدے میں ہے‘‘۔ فہد کی ایسی باتوں پر اس کے اندر کچھ کھٹکا۔

’’تمہیں پتا ہے فہد! حمزہ کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ وہ ایسا کبھی نہیں کہہ سکتا، اسی لیے اپنی یہ حاسدانہ اور جھوٹی باتیں اپنے پاس ہی رکھو۔ ‘‘علی کو حمزہ پر مکمل اعتماد تھا اور وہ فہد کے مزاج کو بھی سمجھتا تھا، تب ہی اس کی بات پر اسے دوٹوک انداز میں جواب دے کر چپ کروادیا۔ اپنی باتوں سے علی کو حمزہ کے خلاف کرکے اسے اپنا ہمنوا بنانے کا منصوبہ مکمل ناکام دیکھ کر وہ جلتا کڑھتا کلاس روم سے باہر نکل گیا۔ لیکن اسے اپنے حاسدانہ منصوبے پرعمل کرنے کا موقعہ دوسرے دن ہی مل گیا ،جب باپ کی سخت بیماری کی وجہ سے کچھ دنوں سے اسکول سے غیرحاضر رہنے والے حمزہ نے بھی فہد سے علی کی خیرخیریت پوچھی۔

’’کل علی بھی تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا اور وہ تمہیں لالچی بھی کہہ رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ حمزہ کی نظریں میری قیمتی قیمتی چیزوں پر رہتی ہیں۔ مجھے اگر پڑھائی میں اس کی مدد کا سہارا نہ ہوتا تو میں کب کا اس لالچی سے دوستی توڑ چکا ہوتا۔ اس کی وجہ سے میں اپنی اتنی اچھی اور مہنگی گھڑی بھی جو کہ پاپا میرے لیے ملائیشیا سے لائے ہیں، اسکول پہن کے نہیں آتا کہ کہیں اس کو بھی وہ اپنی حریصانہ نظروں سے نہ دیکھے اور مجھے پاپا سے اس کے لیے بھی ویسی ہی گھڑی کی فرمائش نہ کرنی پڑے۔‘‘

حمزہ جو خوددار طبیعت ہونے کے باوجود کبھی کبھی دولت مند علی کی دوستی سے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا تھا ،فہد کی ان باتوں میں آگیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہفتے کی غیرحاضری کے بعد جب وہ اسکول گیا تو علی کے گرمجوش استقبال پر اس کا انداز روکھا تھا اور کلاس میں علی کے ساتھ ایک سیٹ پر بیٹھنے والا حمزہ دوسری سیٹ پر فہد کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سارا دن اس کے ساتھ مصروف رہا، اس نے علی سے بات بھی نہیں کی۔ حمزہ کے ایسے رویے سے علی کو بہت دکھ تو ہوا لیکن وہ چپ تھا اور حمزہ کے اس رویے کی وجہ جاننے کی کوشش کررہا تھا۔

حمزہ کو فہد کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھتے ہوئے اچانک اس کے ذہن میں کچھ دن پہلے فہد کی کہی باتیںیاد آنے لگیں اور وہ سارا مسئلہ سمجھ گیا اور پھر بریک میں ایک ساتھ باتیں کرتے حمزہ اور فہد کے سامنے جاکھڑا ہوا۔’’ تمہیں پتا ہے فہد جھوٹ بولنا اور حسد کرنا کتنی بری چیز ہے؟‘‘

’’جھوٹ۔۔۔ ممم میں نے تو کوئی جھوٹ نہیں بولا ہے، چونکہ فہد کے دل میں چور تھا ،اس لیے علی کے یوں اچانک سامنے آکر کھڑے ہونے اور اس کی بات پر ایکدم گھبرا گیا۔ حمزہ بھی حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔’’ کیا کچھ دن پہلے تم نے مجھ سے یہ نہیں کہا تھا کہ حمزہ مجھ جیسے بےوقوف کی دوستی پر ہنس رہا تھا کہ پڑھائی میں تھوڑی سی مدد کردینے سے میں اسے اتنی قیمتی قیمتی چیزیں دے دیتا ہوں ۔‘‘علی کی بات پر فہد بوکھلا گیاتو حمزہ حیران ہوگیا۔

’’اب حمزہ تم بھی اسے بتادو کہ اس نے میرے بارے میں تم سے کیا جھوٹ بولا ہے؟‘‘

’’اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تم مجھے لالچی اور اپنی قیمتی چیزوں کو حریصانہ نظروں سے دیکھنے والا کہہ رہے تھے۔‘‘

’’دیکھا کھل گیا ناں تمہارے جھوٹ کا پول۔ فہد تمہیں پتا ہے دوستی کیا ہوتی ہے؟ دوستی کا مطلب ایک دوسرے پرمکمل بھروسہ کرنا اور ایک دوسرے کے لیے بولے گئے جھوٹ پریقین نہ کرنا ہوتا ہے اور الحمدللہ حمزہ اور میں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں ، لہذاہمارے بارے میں آئندہ ایسی کوشش نہ کرنا۔ علی ،حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر فہد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ تو فہد شرمندگی سے نظریں جھکا کر وہاں سے چلاگیا۔’’ مجھے معاف کردینا۔‘‘ حمزہ شرمندہ سا علی سے بولا۔

کوئی معافی وافی نہیں۔ ہم اچھے دوست ہیں سو بس اچھے دوست ہیں اور ہمیشہ رہیں گے انشا اللہ۔ حمزہ کو مزید شرمندہ کیے بغیر علی نے اسے گلے سے لگالیا۔

تازہ ترین