• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’خوف‘ افسر شاہی کی ناکامی کا باعث بنتا ہے

اسلام آباد (عمر چیمہ) اس افسر نے واضح طور پر انکار کردیا۔ اس سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے دفتر کا پتہ اظہار دلچسپی (ای او آئی) کی تجاویز جمع کرانے کیلئے استعمال کرنے دے۔

انہیں 5 ارب روپے کی مائیکرو کریڈٹ اسکیم، جس کے آغاز کا ارادہ حکومت رکھتی ہے، آؤٹ سورس کرنے کی دعوت دی جارہی تھی۔

ابتدائی طور پر وزارت خزانہ کو خدمات فراہم کرنے والے کے انتخاب کا عمل بجا لانے کیلئے کہا گیا جو غریبوں کو سود سے پاک قرضے دے سکے۔

اس نے انکار کردیا پھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کہا گیا۔ اس نے بھی انکار کردیا۔

اس صف میں وزارت ہاؤسنگ تیسرے نمبر پر تھی۔

موجودہ حکومت کا حصہ ایک شخصیت کے مطابق وہ اس ضروری کام پر راضی ہوگیا۔

پہلے مرحلے میں ای او آئی تجاویز کو یہ دیکھنے کیلئے مدعو کیا گیا کہ اس مقررہ کام کی ادائیگی کیلئے سب سے بہترین خدمت فراہم کرنے والا کون ہوگا۔ دلچسپی رکھنے والے اداروں سے درخواستوں کی فراہمی کیلئے اشتہار میں پتہ دینے کی ضرورت تھی۔

جیسا کہ انہیں اس فیصلے کے حوالے سے مطلع کردیا گیا تھا، انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ سیکریٹری ہاؤسنگ نے ناراضگی دکھانے کیلئے انہیں طلب کرلیا۔

نافرمان افسر کو بھی بتادیا گیا تھا کہ اس طرح کی حرکتیں ان کی مستقبل میں ترقی کے امکانات کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسا افسر جو چھوٹا سا کام کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو وہ بے کار اور قومی خزانے پر بوجھ ہوتا ہے۔

انہوں نے اپنے جواب سے اپنے باس کو حیرت زدہ کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کے حوالے سے دھمکی دینے کے بجائے میرے سر میں گولی ماردو۔

مجھے کھڑکی سے باہر پھینک دو۔ جو بھی چاہتے ہو کرو لیکن میں کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ درخواستیں وصول کرنے کیلئے میرے دفتر کا پتہ استعمال کرے۔

سیکریٹری نے اس کے باوجود زور دیتے ہوئے پوچھا کہ تم اپنے انکار کی وجہ بتاؤ۔افسر نے جواب دیا کہ سر اس کا تعلق 5 ارب روپے کے منصوبے سے ہے۔

مجھے مشکل میں مت ڈالیں۔ جیسا کہ دلائل کا تبادلہ جاری تھا، سیکریٹری نے پوچھا کہ اس منصوبے میں ان کا کوئی کردار ہی نہیں تو وہ کیسے مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔

افسر نے جواب دیا کہ اگر مستقبل میں 5 ارب روپے کے منصوبے کی تحقیقات شروع ہوگئیں تو مجھے ان بنیادوں پر غیر ضروری طور پر پھانس لیا جائے گا کہ اظہار دلچسپی کی تجاویز دینے کیلئے میرے دفتر کا استعمال کیا گیا۔ افسر کے دماغ میں چھپا خوف بے بنیاد نہیں تھا۔

یہ اس برتاؤ کی بنیاد پر تھا جو ان بیوروکریٹس کے ساتھ روا رکھا گیا جو مسلم لیگ نون کی حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے میگا پراجیکٹس میں شامل تھے۔

ٹھیک فواد حسن فواد سے لے کر احد چیمہ تک اور ہاؤسنگ پراجیکٹس اور پینے کے صاف پانی کی اسکیموں کی ذمہ داری ادا کرنے والے بیوروکریٹس یا تو سلاخوں کے پیچھے ہیں یا انکوائریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

مقدمات میں نیب منصوبوں میں ان کے حصے پر کوئی بھی غلطی ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف دیگر الزامات لگاکر ان کی قید کو بھی طول دے دیا جاتا ہے۔

اس طرح کے بیوروکریٹس کی قسمت سےسبق سیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کے میگا پراجیکٹس کی سربراہی کرنے والے افسران کو ان کے خیر خواہوں کی جانب سے مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ خود کا تبادلہ نسبتاً کم اہم عہدوں پر کروالیں۔ ایک وفاقی سیکریٹری کا کہنا ہے کہ خواہ میری اہلیہ ہو، بھائی، رشتہ دار اور دوست، تمام کے تمام مجھے مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ تبادلے کی درخواست دے دو۔

سیکریٹری نے وضاحت کی کہ ہمارے جیسے ملک میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ کب کیا ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی مشق سے رہنمائی لیتے ہوئے کب اگلا سیٹ اپ لگا دیا جائے جو کرپشن کا پتہ لگانے کیلئے جانچ پڑتال شروع کردے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اہم عہدوں پر موجود بیوروکریٹس پہلا ہدف ہوں گے۔ ایک اور سینئر افسر نے یہی خدشہ ظاہر کیا۔

اگر چہ انہوں نے تسلیم کیا کہ حکومت نے نیب کے حوالے سے بیوروکریسی کے خدشات کو نمایاں کیا ہے اور اصلاحی اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا جب تک خوف کا یہ کلچر غالب رہتا ہے۔

اپنی دیانت داری کیلئے مشہور وفاقی سیکریٹری نے ریٹائرمنٹ کے بعد اخبارات میں لکھنا شروع کردیا۔ ان کے مضامین بصیرتوں سے بھرپور ہوتے ہیں جن میں پالیسی نسخے تجویز کئے جارہے ہوتے ہیں لیکن ان کا اثر کم ہوتا ہے۔ ان کے پاس بہت سے راز ہیں لیکن وہ انہیں ظاہر کرنے سے شرماتے ہیں۔

ایک دن دی نیوز نے ان سے پوچھا کہ وہ مکمل تفصیلات شیئر کیوں نہیں کرتے تو ان کا جواب نصیحت آموز تھا کہ سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے ہم بہت سے فیصلے کرتے ہیں، میرے خاموش رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔

جب میں زیادہ تنقیدی ہوجاؤں گا تو وہ مجھے پھانسنے کیلئے ماضی میں کچھ تلاش کریں گے پھر انہوں نے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی کہانی شیئر کی جو 20 سال قبل کئے گئے ایک فیصلے پر اب بھی نیب کا سامنا کر رہے ہیں۔

دوسری جانب نیب کا موقف ہے کہ بیورو کریسی کو نیب سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، نیب کا تعلق کسی فرد، گروہ یا جماعت سے نہیں۔

تمام سیاستدانوں کا قانون کے مطابق احترام کرتے ہیں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تاہم ملک سے بد عنوانی کا خاتمہ ہو گا تو ملک ترقی کرے گا، تاجر ملک کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے احترام میں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے مقدمات نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

تازہ ترین