• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کا عمران خان کی پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔۔۔ آپ کے خیال میں عمران خان وزیراعظم بنیں گے؟۔۔۔ ایسے بہت سے سوالات لئے کوئی نہ کوئی ہرروزمل ہی جاتا ہے ۔ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کے لئے تو عمران کا مسند اقتدار پر براجمان ہونا شاید ایک لازمی امرٹھہرچکا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ کرکٹ میں پاکستان کو ورلڈ کپ میں فتح دلوانے اوراس کے بعد شوکت خانم جیسے رفاعی ادارے کے قیام کے باعث عمران خان عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ آج سے تقریباً سترہ سال پہلے سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان سے ایک دہائی تک ایسی کوئی امید وابستہ نہیں کی گئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ1996میں سیاست کے میدان میں کودنے والے عمران خان کو 97 کے انتخابات میں لاہور کے تین حلقوں سے شکست فاش ہوئی تھی اور وہ ان حلقوں میں چھ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے کیونکہ سیاست ، کرکٹ اور رفاعی کام تین مختلف چیزیں ہیں اور ان کے الگ الگ تقاضے بھی ۔
میرے خیال میں ابتدائی ایام میں عمران خان اور اس کے ساتھی شاید پاکستان کی سیاست کو درست انداز میں سمجھ نہیں پائے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو سیاست کے میدان میں پہلی مرتبہ اپنا کوئی واضح مقام بنانے کا موقع اکتوبر 2011 کو لاہور میں ملا۔ اپنی سیاست کی ابتداء سے 2011 کے دوران عمران خان نہ صرف جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کے حامی رہے بلکہ ان کے ریفرنڈم کا بھی بھرپور ساتھ دیا۔2002 میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف صرف ایک قومی اسمبلی کی نشست ، جو میانوالی سے خود عمران خان نے جیتی ہی حاصل کر پائی۔مگر اکتوبر 2011 کو لاہور میں ہونے والا جلسہ عمران خان کے سیاسی کیریئر میں گویاجان ڈال گیا۔جلسے میں آنے والے لوگ بہتر مستقبل کی امید لئے عمران خان کا ساتھ دینے آئے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم اتنے بڑے سیاسی مجمعے دیکھے ہیں، اس روز اگر عمران مستقبل کا واضح روڈ میپ دے دیتے تو یہ پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کے عمل کا نقطہ آغاز بن جاتا۔ اس روزجلسے میں آنے والے افراد اپنی مرضی سے آئے تھے، ان افراد کو مینار پاکستان آنے کے لئے کسی سیاسی رشوت ، کسی نوکری کے وعدے یاکسی لالچ نے نہیں بلکہ تبدیلی کی امید نے مجبور کیا تھا۔ وہ لوگ نہ تو کسی علاقے کی با اثر شخصیت کے کہنے پر آئے تھے اور نہ ہی برادری کی لاج رکھنے کے لئے، وہ لوگ حقیقت میں پاکستان کے موجودہ نظام میں بہتری کے خواہشمند تھے۔ اسی لئے لوگ اپنے بیوی اور بچوں کے ہمراہ آئے ۔
اگرچہ لاہور کا جلسہ بہت شاندار تھا اور شاید عمران خان کے چاہنے والوں کے لئے ان کے وزیر اعظم بننے کے لئے کافی تھا لیکن پاکستان کی سیاست میں جلسوں سے پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں حاصل کی جاسکتی۔ جلسے تو صرف موجودہ عوامی موڈکے عکاس ہوتے ہیں۔سوال یہ ہوتا ہے کہ ان جلسوں کے شرکا ء میں سے کتنے اپنے اپنے حلقوں کے پولنگ سٹیشنز میں جا کر ووٹ دیں گے اور کتنے گھروں میں بیٹھے رہ جائیں گے؟کیا ایک جلسہ گاہ میں موجود لاکھوں افراد کے ووٹوں سے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی جاسکتی ہے؟ یا پھر اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے کروڑوں ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے؟۔۔۔یہ سوالات اس جلسے کے بعد بہت سے دیگر حلقوں کی طرح تحریک انصاف کے اعلیٰ پالیسی ساز افراد کے ذہن میں بھی ضرورآئے ہوں گے۔۔۔ یہ وہی وقت تھا جب ایک تبدیلی کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعت نے انتخابی سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکٹ ایبلز کو اپنی پارٹی میں لینے کا عمل شروع کر دیا۔عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی نظر میں شاید موجودہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں شکست دینے کے لئے کسی انقلابی حکمت عملی کی بجائے ان کی کرشماتی شخصیت اور چند الیکٹ ایبلز افراد ہی درکار ہوں گے۔ گویا نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے اسی نظام میں رہتے ہوئے ،پرانے کھلاڑیوں کو انہی کی پچ پر انہی کی الیکٹ ایبلز والی حکمت عملی سے ہرانا۔۔۔ یہ عمل ان کا اس نوجوان نسل پر عدم اعتماد کا پہلا عملی ثبوت تھا جوان کے تبدیلی کے نعرے کی بنیاد تھی۔
الیکٹ ایبلز کے بغیر سیاسی کامیابی ناممکن ہے کی لائن دینے والوں کی مان کر کپتان نے اپنے سیاسی کیریئر کو ایک مرتبہ پھرداؤ پر لگا دیا۔ اگر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی حکمت عملی کامیاب رہی تو عمران کی وزرات عظمیٰ پکی لیکن اگر یہ حکمت عملی الٹی پڑ گئی تو پھر عمران خان کے سیاسی کیریئر کو ختم ہی سمجھیں۔ دوسرے والے منظرنامے کے رونما ہونے کے امکانات زیادہ روشن دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس کھیل میں پڑ کر انہوں نے اپنے سب سے بڑے ہتھیار تبدیلی کے نعرے کو کھو دیا ہے۔ شاید عمران خان اور ان کی پارٹی کے پالیسی میکرز کے لئے انقلاب والا راستہ مشکل تھااس لئے اس ” آسان“ راستے کا انتخاب کیا گیا۔ جب انقلاب کے دعویدار اپنی جماعتوں میں الیکٹ ایبلز لے آتے ہیں تو اس سے جماعتوں کا ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے، فائدہ نہیں ۔ اگر70 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر غریب افراد کے نمائندے منتخب ہوئے تو وہ انقلاب کا کرشمہ تھا، جب 77 میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو جماعت میں انتخابات سے پہلے صرف ووٹوں کے مقاصد سے لایا گیا توجماعت عوامی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھی، بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی ۔۔۔اور وہ الیکٹ ایبلز جو اس کا سبب بنے آج بھی مزے میں ہیں۔ ۔۔۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی نظام کو تبدیل کرنے میں ناکامی عوام کی ناکامی میں بدل جاتی ہے۔
تحریک انصاف کو ایک بات کی شاباش البتہ دینی چاہیے کہ اس نے اپنے اندر جمہوری عمل کو لانے کی کوشش کی ہے۔ کارکنوں نے یونین کونسل کی سطح سے اپنی قیادت کو منتخب کرنے کی جو مشق کی ہے اس میں بہت سی خرابیوں کی نشاندہی سامنے آئی ہے ۔ جماعت کے اندر تنقید ہو رہی ہے کہ جماعت میں انتخابات کا وقت درست نہ تھا، جماعتی الیکشن کمیشن کی کارکردگی بھی بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے ۔ یونین کونسل کی سطح پر بہت کم ووٹ ڈالے گئے ۔ مگر اس کے باوجود عموماًجو طبقات سیاست سے دور رہتے ہیں وہ اس عمل میں شریک ہوئے اور یہی وقت کی ضرورت ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں میں عملی شرکت کریں تاکہ پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری نظام میسر آ سکے۔ عمران خان نے ان انتخابات کو الیکٹ ایبلز کی جماعت میں شمولیت کے الزام کا جواب دینے کے لئے بھی استعمال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میرے پاس الیکٹ ایبلز کی لائنیں لگی ہوئی تھیں تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ اپنی جماعت میں انتخابات کرواتا؟ میں نے یہ انتخابات جماعت سے خوشامدی کلچر کو ختم کرنے کے لئے کروائے ہیں۔ ہم جب 23مارچ کو مینار پاکستان میں اکٹھے ہوں گے تو تحریک انصاف پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہو گی جس کے اسّی ہزار منتخب نمائندے حلف اٹھائیں گے۔۔۔ایک نئے پاکستان کا منشور دیں گے، لوگ پرانی سونامی بھول جائیں گے ۔۔۔۔خدا کرے ایسا ہی ہو اور یہ سونامی پاکستان میں دیگر جماعتوں کو بھی اپنے اندر ایسے ہی انتخابات کروانے پر مجبور کر دے۔
تازہ ترین