• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
سچی! غور کیجئے کس جہان کے باسی ہیں ہم؟ دوسروں کا غم دیکھتے ہیں تو دل میں خوف کھانے لگتے ہیں کہ خدا کبھی ہم پر برا وقت نہ لائے پھرایک خوف ابھرتا ہے کہ اللہ کو پسند نہیں کہ صرف اپنے لئے دعا کی جائے اس خیال کے کوندتے ہی جھٹ سے دل سے آواز دعا کی صورت اختیار کر لیتی ہے کہ اے اللہ کسی انسان پر کبھی برا وقت نہ آئے۔ ہم اس جہان کے باسی ہیں جہاں صرف اپنے لئے سب اچھا اچھا کی خواہش ابھرتی ہے۔ اسی جہان میں آدھے سے زیادہ لوگ ہر ستم وقہر اور ظلم و زیادتی کا شکار ہیں۔ ان کے دکھوں سے کچھ لوگ واقف رہنا چاہتے ہیں کچھ غفلت سی برتتے ہیں اور کچھ تو جاننا ہی نہیں چاہتے کہ ان کے علاوہ بھی ایک تیسری دنیا ہے جہاں اچھی زندگی کا لوگ مطلب ہی نہیں جانتے۔ کچھ فکر سے عاری لوگ ہیں ذرا سی بری خبر پر ان کی نظر رہی اس کے بعد دھندلا سا عکس ہی رہ جاتاہے۔
مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کا خوف ہر دم سینے میں رکھتے ہیں اور گناہ سمجھتے ہیں کسی کے ملال ورنج پر رنجید ہ ہونا وہ حساس ترین لوگ ہوتے ہیں جنہیں جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے کہ خدا ایسا برا وقت کسی دشمن پر بھی نہ لائے جن کے ضمیر زندہ ہیں وہ فکر میں دوسروں کی گھلے رہتے ہیں ویسے حادثے اور غم فکر جب کسی جگہ زیادہ ہو جائیں تو وہ ایک دم سے رنج وملال کی کیفیت کو ٹھنڈے اور دھیمی سی کیفیت میں لے جانا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ مشکلیں انسان پر جب بہت پڑیں تو پھر وہ آسانی کی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں یعنی مشکل حالات میں بھی فکر نہیں اس جہان کی بات ہی کی کیاجہاں عدالتیں اپنا وقت ضائع کرتی ہیں قوم کو تماشا دکھا کر مزہ دینے میں کہیں کا جرم، کہیں کا مجرم دونوں کو ملا دیتے ہیں۔ اس کیس کے فیصلے کی سمجھ کسی کو نہیں آتی جہاں بے گناہ پھانسی چڑھ جائیں اور گناہ گار مجرم کو آنچ تک نہیں آتی۔ہم اس جہان میں ہیں جہاں کتوں کے کاٹنے سے لیکر ایڈز کے مریضوں تک کیلئے دوائی اور علاج کی سہولیات تک نہیں اور اسی جہان میں کتوں کی تعداد سے زیادہ چوروں، ڈاکوئوں کی تعدادہے اور ان سے بھی زیادہ سیاسی کرپٹ مافیا کا راج ہے جنہیں گند میں اور گندے ترین ماحول میں کچرے پر محل بنانے اور سجانے کا شوق زیادہ ہے۔
کتوں کے کاٹنے سے دوائی نہ ملنے پر ایک شخص کا احتجاج انوکھا تھا کہ اس نے کتا بن کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اسے بائولا کتا بن کر حکام اعلیٰ کے دو چار لوگوں کوکاٹ لینا چاہئے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا علاج کیسے ممکن ہوتا۔
اس ملک کے مسائل کیلئے کچھ ہو نہیں رہا تو مسائل کے شکار افراد کیلئے کوئی علاج نہیں کوئی مسائل کا حل نہیں۔ بے حس جہاں کے باسی اور ان کی نسلیں ہی صرف پروان چڑھ رہی ہیں غریب عوام اور ان کی نسلیں بریدہ بدن، بریدہ اعضاء کے ساتھ کٹی پھٹی اور ادھڑی ہوئی مل رہی ہیں۔ والدین کے بین ختم ہو کے نہیں دے رہے کیونکہ کمزور نظام کے دجال کچھ ٹھیک نہیں کر رہے۔ قصور کا مسئلہ سانحہ اور بریدہ لاشوں کا لامتناعی سلسلہ تھم کے نہیں دے رہا۔ حتیٰ کہ میڈیا پر پولس نے یہ خبر ہی نہیں پہنچائی کہ پھر سے قصور کے والدین کی شکایات کا سلسلہ شروع ہےکہ بچے اغواہو رہے ہیں مگر جب کٹی ہوئی لاشیں برآمدہوئی تو خبریں باقاعد آنا شروع ہوئیں کہ وہی سلسلہ پھر سےشروع ہو گیا ہے ۔ قصور کے بچوں کے ساتھ زیادتی سے متعلق وہی پرانی والی افواہوں پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اس میں بڑے لوگ شامل ہیں۔ کوئی آنکھ میں دھول جھونکنے والا معمولی ذہنی بیمار یہ اتنا بڑا جرم نہیں کر سکتا اور جس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں جوکہ سب کرنے کے بعد غائب ہوجائےتو سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ پھر وہ زینب کا قاتل کیا غلط پھانسی لگا ہے کہ جس کی پھانسی سے تھوڑی دیر کو اس علاقے وشہر میں تھوڑا امن رہا مگر پھر اس کی روح نے آکر وہی گھنائونا کھیل یعنی زیادتی اور پھر قتل کرنا شروع کر دیا تو شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ واقعی بڑی مچھلیاں اس گھنائونی سازش میں شامل ہیں کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ڈارک ویب کا ایک باقاعدہ گروہ اس تمام میں شامل ہے۔ وہ گروہ پکڑائی کیوں نہیں د ے رہا؟
ہم اس جہان کے باسی ہیں کہ جو اپنی نسلیں بچانے کی فی الحال کوئی فکر نہیں کر رہے ہیں کہیں ہماری نسل ایڈز کا شکار ہو رہی ہے تو کہیں نشے کے عادی بڑھتے جا رہے ہیں کچھ بچے جرائم کا شکار ہیں کچھ بیمار ہونے کے بعد علاج کی سہولت نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کےموت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
اس جہان پاکستان میں بھلا زندہ کون ہے؟ ہاں زندہ تو وہ ہیں جو معمولی چپڑاسی ہوتے ہیں پھر وہ چال چل چل کر امیر ترین بن جاتے ہیں یا پھر کلرک رشوت کھا کھا کر منسٹر تک بن جاتے ہیں اور یا پھر باغ کے مالی جو باغات کی مٹی بیچ بیچ کر سونا بنا لیتا ہے اور پھر اسی سونے سے گھر تعمیر کر لیتا ہے اور گھر بھی ایسا کہ جو بڑے سےبڑے امیر کو بھی نصیب نہ ہو جس کے غسل خانےبھی حسین خواب گاہ کا نظارہ پیش کرتے ہیں اس ہیرے جواہرات والے جہان کے لوگوں کا تو مرنے کو بھی جی نہ چاہے کیونکہ اتنا حسین جہان چھوڑنے کو کس کافر کا جی چاہے گا اور انہوں نے مٹی گارے کی مہلک حشرات والی قبر میں بھی جانے کا تو کیا بلکہ ایسی قبر کا تصور تک نہ کیا ہو گا تو اس جہان ہوشربا والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اس ہوشربا سازوسامان کے ساتھ ہی دفن ہو جائیں وہ ایسے کہ جب موت آئے تو اسی آرام دہ بستر پر ہی لیٹےرہیں آپ کے احباب کفن دفن نہلانا دھلانا نہ کریں اسی خواب گاہ کو قبر بنا دیں آپ کو بھی لگے کہ مرے نہیں اپنے بستر پر ابدی نیند سو رہے ہیں تو اس طرح سامان بھی قبر میں چلا جائے گا۔سنگر صبا کی طرح اور آپ بھی سکون میں۔
تازہ ترین