• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان۔۔ مانچسٹر
زمانہ بدل گیا ہے ۔ اب تو کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرسکتا۔ مہنگائی اس قدر ہے، پتہ نہیں غریب کیسے زندہ ہیں۔ اچھے بڑے پڑھے لکھوں میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ دوستی اور محبت تو کتابوں میں رہ گئی ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ لوگ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ نہ گھر کا پتا ہے نہ گھاٹ کا۔ انسان تو مشین بن کر رہ گیا ہے ۔رہی سہی کسر موبائل نے نکال دی ہے ۔ فیس بک تو پورا ڈرامہ ہے۔لوگ کھانے پینے کی تصویریں کھینچ کھینچ کے لگائے جاتے ہیں۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جس کو اپنا سمجھو وہ ہی کمر میں چھرا گھونپ دیتا ہے۔ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے ۔اس طرح کی باتیں بلکہ ایسی اور بہت سی مایوسیاں ہر طرف پھیلی نظر آتی ہیں۔ یہ جملے سماعتوں کے لیے نئے نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پہلے کی نسبت معاشرہ بہت بدل گیا ہے۔ لیکن تبدیلی ہی تو مستقل چیز ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔ البتہ مایوسی گناہ ہے۔ زندگی کے خلاف ہے۔ مہنگائی ایسا کلیشے ھے جو خاص طور پر عورتوں کی شکایت کا موضوع رہا ہے۔ البتہ پچھلے دس سالوں میں فیس بک نے واقعی زندگیاں بدل دی ہیں۔ پہلے بچوں کو ابتدائی عمر میں سمجھایا جاتا تھا کہ اجنبیوں سے بات نہیں کرنی۔ اب چھوٹے بڑوں کے دنیا بھر میں فیس بک فرینڈز ہیں۔ فیس بک پر گزارا ہوا ٹائم آپ کے حصے کی خوشی کھا جاتا ہے اور آج تک فیس بک نے کسی کو خوشی فراہم کی ہو، کم از کم میرے علم میں ایسا نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی کی سہولتیں بہت سے لوگوں کو حاصل ہیں لیکن ان کا سنجیدہ اور فائدے مند استعمال نہیں جانتے۔ فیس بک پر لوگ وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور دھوکے کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شوبز کے لوگ ہی جانے پہچانے چہرے ہوتے تھے۔ اب ہر فرد سٹار ہے اور خود کو سو میں سے سو نمبر دے کر خود کو سپر اسٹار محسوس کرتا ہے۔ مایوسی صرف سوشل میڈیا کا حصہ نہیں رہا بلکہ معاشرے میں اس طرح کے رویے جنم لے رہے ہیں جن کو بلاشبہ مایوسی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً نوکری کا نہ ملنا۔ جابز میں ایکسٹرا گھنٹے لگانا۔ خود کو تنہا محسوس کرنا۔ اپنے آپ کو بے وقعت سمجھنا۔ ہر وقت روتے رہنے کو جی چاھنا۔ یہ سب علامتیں مایوسی سے اگلا درجہ ہے۔ جس کو ڈپریشن کہتے ہیں۔ آج کل مان لیا گیا ہے کہ محض اینٹی ڈپریسنٹ گولیاں اس کا علاج نہیں بلکہ تبدیلی اور دوستی وہ ذرائع ہیں جس سے انسان ڈپریشن سے باہر نکلتا ہے۔ جائزہ لیتے رہنا چاہیے اگر ارد گرد کے لوگوں میں غیر معمولی رویے دیکھیں تو ضرور توجہ دیں اور ان کی مدد کریں۔ یوکے یورپ میں آپ کو بہت سے ایسے انگلش لوگ ملیں گے جو یورپ کی مادی زندگی سے دور دوسری ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جو پرسکون ہوں۔ کچھ لوگ جانتے ہیں کہ کیسے جینے کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسی زندگی ملی ہے اسی کے ساتھ گزارا کرنا ہوگا۔
ذہنی تکلیف کو تکلیف ہی نہیں کہا جاتا۔ اگر آپ کسی سے کہیں کہ آپ کے دانت میں درد ہے تو اگلا شخص فوراً کہے گا "دانت کا درد بڑا ظالم ہوتا ہے" لیکن اگر آپ کسی سے کہیں کہ میرا دل ٹوٹ گیا ہے تو لوگ اس کو محض رومانوی بات کا درجہ دیں گے۔ اس سے زائد کچھ نہیں۔ دنیا بھر میں 300 ملین لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں مردوں کی نسبت عورتیں اس کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ بدترین صورت میں انسان خودکشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن تعلق ٹوٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مایوسی ساتھ چھوٹنے سے ہوتی ہے۔ خواہ وہ محبت ہو، نوکری ہو یا اپنی کسی عزیز چیز سے دوری ہو تو انسان ڈپریس ہو جاتا ہے وفائی کا شکار لوگ بھی ڈپریشن میں جکڑے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے مجھ سے رابطہ کیا کہ بہت عرصے سے آپ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ مجھ سے ملنا چاہ رہی تھی مجھے لگا یہ غیر معمولی بات ہے تو میں نے فورا اس کو ملنے کے لئے ٹائم دیا۔ جو کچھ اس نے مجھے بتایا وہ ڈپریشن کی کہانی تھی۔ جس سے وہ 6,7 مہینے گزری اور اس کے بقول کے وہ صرف روتی رہتی تھی۔ اس کو لگتا تھا کہ زندگی بے معنی چیز ہے۔ زندہ رہ کر کیا کرنا ہے!!۔ پھر اس کی توجہ کسی نے مذہب کی طرف دلائی۔ تب کہیں ڈپریشن سے اس کی جان چھوٹی۔ لوگ اس وقت بھٹک کر جادو ٹونے کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ زندگی کا المیہ یہ نہیں کہ یہ مختصر ہوتی ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ زندگی گزارنے کا سلیقہ دیر سے آتا ہے۔ خوش رہنا مسکرانا اپنی پسند کے کام کرنا انسان کا حق ہے اور جینے کے سو بہانے ہیں بلکہ خوش رہنے لیے کیا یہ کم بات ہے کہ انسان کو زندگی ملی ہے ماں باپ بہن بھائی دوست رشتے دار ملے ہیں۔ انسان کو اللہ نے عقل دی ہے۔ انسان جو کچھ سیکھتا ہے اس سے بھی حد درجہ تشفی اور خوشی ملتی ہے۔ واصف علی واصف کہتے ہیں، ’’کہ کائنات کے بڑے بڑے مضامین میں نہ پڑو بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دو اس کو راضی رکھو جو ہمسفر ہے چاہے وہ ہم خیال نہ بھی ہو‘‘ دنیا بھر میں لوگ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے لئے جینے سے اصل خوشی ملتی ہے، یہ کام جتنی جلدی ہوسکے شروع کر دینا چاہیے۔ ڈپریشن کا علاج میڈیکل سائنسز نے اینٹی ڈپریسنٹ گولیوں کی صورت میں نکالا ہے لیکن خود انسان اپنے آپ کو مصروف رکھ لیں، اپنی روٹین اور زندگی کے نظم و ضبط کا خیال رکھے، اچھی خوراک استعمال کرے۔ ورزش کرے قدرتی مناظر کے قریب رہے تو جینے کے لاکھوں بہانے سمجھ آنے لگتے ہیں۔
تازہ ترین