• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی خاطر موجودہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تجاویز کے مطابق جو مشکل فیصلے کیے، ان کے نتیجے میں عام آدمی کی دشواریوں میں اگرچہ بے پناہ اضافہ ہوا تاہم اصلاحاتی پروگرام پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے دورے پر آنے والی مالیاتی فنڈ کی اسٹاف ٹیم کا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ مالی سال کے ابتدائی تین ماہ میں معیشت کے کئی شعبوں میں خوشگوار نتائج سامنے آئے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید بہتری آئے گی، اگر درست ہے تو پوری پاکستانی قوم کے لیے یقینی طور پر بڑی اطمینان بخش بات ہے۔ ٹیم کی جانب سے جمعہ کو اپنے پانچ روزہ دورے کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا معاشی اصلاحات پروگرام گو کہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن بعض اہم شعبوں میں پیشرفت ہوئی ہے، مارکیٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ کے تعین سے بیرونی توازن کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، ایکسچینج ریٹ کا اتار چڑھائو کم ہوا، مانیٹری پالیسی افراطِ زر کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہو رہی ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے، ٹیکس ریونیو جمع کرنے میں خاطر خواہ بہتری آئی، ٹیکسوں میں گروتھ دو عددی نظر آرہی ہے، پروگرام کے تحت سماجی شعبے کے لیے اقدامات پر عملدرآمد ہوا ہے، قرضہ پروگرام کی منظوری کے وقت طے کیے گئے کم مدتی میکرو اکنامک اہداف برقرار رکھے گئے ہیں۔ آئندہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں کمی متوقع ہے، ٹیکسوں کی وصولی بہتر ہوئی، کرنٹ اکائونٹ خسار ے میں بھی تیزی سے بہتری کی امید ہے تاہم مقامی اور بین الاقوامی خطرات اور بنیادی اقتصادی چیلنج برقرار ہیں لہٰذا ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اصلاحاتی ایجنڈے پر فیصلہ کن عملدرآمد ضروری ہے۔ اسٹاف ٹیم نے وفاقی وزیر برائے توانائی سے ملاقات میں قابلِ تجدید توانائی کو ترقی دینے کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔ ٹیم کے اعلامیے میں صراحت کی گئی ہے کہ پاکستانی معیشت کی موجودہ صورت حال پر یہ نقطہ نظر آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا نہیں بلکہ اسٹاف ٹیم کا ہے؛ تاہم یہ توقع بے جا نہیں کہ مالیاتی ادارے کا ایگزیکٹو بورڈ بھی اپنی اسٹاف ٹیم کی مثبت رائے سے بحیثیت مجموعی اتفاق کرے گا۔ معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کے ضمن میں آئی ایم ایف کی حوصلہ افزائی کے باوجود ذمہ داران حکومت کو اس امر کا لازماً اہتمام کرنا چاہئے کہ مشکل معاشی فیصلوں کے باعث رونما ہونے والے مسائل کی شدت سے عام لوگوں کو حتی الامکان بچایا جائے جس کا کچھ اندازہ ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے کے دوران مہنگائی میں اٹھارہ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور متعدد اشیائے خور و نوش سمیت ستائیس اشیاء کی قیمتیں بڑھیں۔ مہنگائی میں اس تیز رفتار اضافے کی وجہ سے کروڑوں پاکستانیوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک کو طلب کرکے احساسِ ذمہ داری کا اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ماہرین نے توانائی اور عام اشیائے صرف کی قیمتوں کے بڑھنے کے بنیادی اسباب میں ایکسچینج ریٹ، پالیسی ریٹ اور ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافے نیز سیاسی عدم استحکام کو شامل کرتے ہوئے کم ترجیح والے منصوبے بند کرکے کم آمدنی والے طبقوں کو سبسڈی فراہم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ایسے اقدامات بلاشبہ وقت کی ضرورت ہیں تاکہ ملک کے 90فیصد غریب اور متوسط شہری موجودہ مشکل دور کی آزمائشیں جھیلنے اور اچھے وقت کا انتظار کرنے کے قابل ہو سکیں۔

تازہ ترین