• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ بچوں سے ڈھیروں باتیں کرنے کا دن۔

آج جب اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسے نواسیوں سے تبادلۂ خیال کے لیے بیٹھیں گے تو مجھے یقین ہے کہ بچے سب سے زیادہ سوالات کشمیر کے بارے میں کریں گے۔ وہ روز ہی چینلوں پر انسانیت کی بے بسی دیکھتے ہیں۔ ایک طرف امریکہ، یورپ، دبئی ہیں۔ جہاں انسان زندگی اعلیٰ ترین سہولتوں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ جہاں پولیس تشدد، فوجی مظالم کا تصوّر بھی نہیں ہے۔ وہ فلموں میں خبروں میں ترقی یافتہ ممالک کے مناظر دیکھتے ہیں۔ آپ انہیں چھٹیوں میں کسی ایسے ملک میں لے کر گئے ہوں گے تو انہوں نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے نائب انسان نے اپنی تحقیق اور تخلیق کے ذریعے کتنی ایجادات کی ہیں۔ کیسا پُرامن اور باترتیب نظام تشکیل دے لیا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر کی گلی کوچوں میں فائرنگ کرتے، آنسو گیس پھینکتے دکھائی دیتے ہیں تو ان بچوں کے ذہن میں کیا کیا خیالات آتے ہوں گے۔ میرے بچے تو پوچھ رہے ہیں کہ وزیراعظم اقوام متحدہ سے خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ کیا اس سے کشمیریوں کو بھارت کے جبر سے نجات مل جائے گی؟ دوسرے بچے کا کہنا ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تو پہلے بھی کئی وزرائے اعظم کشمیر پر گرما گرم تقریریں کر چکے ہیں۔ تاریخ کا کہنا ہے کہ 1965میں سیکورٹی کونسل میں ہمارے مقبول وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایسی تقریر کی تھی جو کشمیریوں کے دل میں اُتر گئی تھی مگر کشمیر تو اب تک بھارت کے قبضے میں ہے۔

ہماری تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ہمیں کشمیر سے زیادہ مسئلہ کشمیر عزیز ہے۔ اس مسئلے کے زندہ رہنے سے مقبوضہ کشمیر، آزادجموں و کشمیر، بھارت، پاکستان اور دبئی کے کتنے ہی خاندانوں کے وارے نیارے ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ کوئی ایسی صبح طلوع ہو جب کشمیری اپنی مرضی سے آزادی کی زندگی گزار سکیں۔ بچے عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد سب معاملات درست کر سکتے ہیں۔ اس لیے رعایا کا بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم ہمارے سپہ سالار ہر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ اب ان بچوں کا بھی اور ہم کروڑوں کا بھی یہ احساس ہے کہ وزیراعظم سعودی عرب گئے ہیں، اقوام متحدہ جارہے ہیں جہاں امریکی صدر سمیت تمام ملکوں کے سربراہان ہمارے وزیراعظم کی تقریر بہت انہماک سے سنیں گے۔ ان کے دل پگھل جائیں گے اور وہ سب مل کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو کان سے پکڑ کر دبائو ڈالیں گے کہ کشمیر کا آئینی رتبہ واپس کرو۔ ورنہ ہم بھارت کا سوشل بائیکاٹ کر دیں گے۔ کاش ایسا ہو سکتا۔ ہم اتنے طاقت ور ہوتے۔ ان سب ملکوں کے لیے ہمارا وجود ناگزیر ہوتا لیکن میں تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس 70کی دہائی سے دیکھ رہا ہوں۔ پہلے میرا خیال بھی یہی ہوتا تھا کہ جب ہمارے صدر یا وزیراعظم تقریر کرنے ڈائس پر آتے ہیں تو دوسرے سب ملکوں کے سربراہ ہمہ تن گوش ہوتے ہیں۔ ہر اہم نکتے کو اپنی نوٹ بک پر درج کرتے ہیں۔ واقعی سارے رکن ممالک اقوام متحدہ کی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں۔ یہ تقریر سربراہان کا موضوع سخن بنتی ہے۔ اتنے اہم فورم پر خطاب ہو تو اسے امریکی اخبارات، ٹی وی سب شہ سرخیوں میں شامل کرتے ہوں گے۔ اس طرح ہمارے ملک کا موقف چار دانگ عالم میں پہنچ جاتا ہوگا۔

اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل مندوب بڑی بڑی ہستیاں رہی ہیں۔ اب ملیحہ لودھی ہیں۔ تجربہ کار سفارت کار، صحافی، مصنّف، اپنی سی کوشش کرتی رہتی ہیں لیکن اُن مندوبین کی اہمیت ہوتی ہے جن کے ممالک اقتصادی، سیاسی اور عسکری اعتبار سے طاقت ور ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم جغرافیائی حیثیت عطا کی ہے۔ 60فیصد سے زیادہ آبادی جوان ہے مگر ان دونوں نعمتوں کو اپنا اثاثہ بنانے کی بجائے ہم نے اپنی مجبوری بنا لیا ہے۔

چلئے پھر واپس اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں چلتے ہیں۔ میں ایک صحافی کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ امریکی صدر کی تقریر ہو تو قریباً سبھی سربراہ موجود ہوتے ہیں۔ ہال بھرا ہوا ہوتا ہے لیکن جب دوسرے ملکوں کے صدر یا وزرائے اعظم آتے ہیں تو ہال کی چند قطاریں بارونق ہوتی ہیں۔ سب سربراہوں کو اپنے اپنے وقت کا علم ہوتا ہے۔ ان کا اسٹاف انہیں چند منٹ پہلے لے کر ہال میں پہنچتا ہے۔ ایک سربراہ کی تقریر اپنے آخری دموں پر ہوتی ہے، وہ تقریر ختم کرتا ہے تو اپنے اسٹاف کے ساتھ ہی واپس چلا جاتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم ہوں یا کسی اور ملک کے سربراہ۔ ان کے سامعین میں زیادہ تر اقوام متحدہ کا اسٹاف یا کوئی ریسرچر یا اس ملک سے متعلقہ دوست ممالک کے خارجہ امور کے اسٹاف یا مستقل مندوب بیٹھتے ہیں۔ یہ جو تصوّر ہے کہ ہمارے وزیراعظم تمام بڑے ملکوں کے سربراہوں کے سامنے کلمۂ حق کہہ رہے ہوتے ہیں، دوست یا دشمن ملکوں کے سربراہ غور سے تقریر سنتے ہیں۔ یہ محض ایک خام خیالی ہے۔ اقوام متحدہ کے یہ اجلاس رسمی کارروائیاں ہیں۔ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر مختلف ممالک کے ستم زدہ اپنے احتجاجی جلوس نکال رہے ہوتے ہیں۔

امریکی اخبارات سربراہی تقریروں اور دوسری رسمی کارروائی سے زیادہ اہمیت احتجاجی ریلیوں کو دیتے ہیں۔ ان میں اگر کوئی تشدد ہنگامہ ہو جائے تو ٹی وی چینل بھی اسے دکھاتے ہیں۔

یہی سربراہی تقریر ان ملکوں کے اخبارات کی شہ سرخی ہوتی ہے۔ چینلوں میں بریکنگ نیوز پر ان ملکوں کی رعایا بہت خوش ہو رہی ہوتی ہے کہ ہمارے محبوب وزیراعظم نے سب سربراہوں کی موجودگی میں اپنا مسئلہ اٹھایا۔ پاکستان کے عوام کو خوش خبری دی جاتی ہے کہ ہمارے وزیراعظم کی تقریر سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے۔ اس گناہِ بے لذّت پر لاکھوں ڈالر اٹھ جاتے ہیں۔ زمانے بدل گئے ہیں۔ ہمیں کشمیریوں کی جدوجہد کو منطقی انجام تک لے جانے کے لیے روایتی کارروائیوں سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہئے۔

تازہ ترین