• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسکر وائڈ نے کہا تھا ’’زندگی میں بدبختی کا مقابلہ تو کسی نہ کسی طرح ممکن ہے لیکن اپنی کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا خمیازہ زندگی اجیرن کر دیتا ہے‘‘۔ نجانے وطن عزیز کے ہر شہری کے دل میں یہ بے نام احساس کیوں ہےکہ جیسے سمندر میں طغیانی ہے اور لحظہ بہ لحظہ کنارہ دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ گرداب میں کشتی جا پھنسی ہے اور لمحہ بہ لمحہ بچنے کی تمام امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ڈھارس، دلاسا اور پرسا دینے والا بھی کوئی نہیں۔ کس کی طرف نظریں اٹھائیں؟ ایوانِ اقتدار پر قابض بعض سیاسی بونوں کی طرف، جن کی نظریں اپنی ذات کا طواف کرتی رہتی ہیں۔ میدانِ سیاست کے ان کھلاڑیوں کی طرف، جو اپنی اپنی اننگز کھیل کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں؟ کوئی بے کسی سی بے کسی ہے۔ لاچاری ہے کہ کسمپرسی۔ بے انت اندیشے اور بے رحم خیالات کے شکنجے۔ نظریں اٹھیں تو کس کی طرف؟ آس لگائیں تو کس سپر پاور سے؟ 70سالہ حریفانہ کشاکش کے بعد امریکہ و روس ایک میز پر جمع تھے۔ امریکی صدر اوباما نے دستخط کئے تو روسی صدر نے بھی بلا چون و چرا جوہری ہتھیار کم کرنے کو تسلیم کر لیا۔ جمہوریہ چیک کے دارلحکومت ’’پراگ‘‘ میں گزرے چند لمحوں نے ساٹھ سال کے خون کے دھبے دھو ڈالے۔ سرد جنگ کے ان دونوں حریفوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ عالمی سیاسی ماحول کو یکسر بدل گیا۔ دنیا تصور نہیں کر سکتی تھی وہ روس جو کبھی اتنا حساس تھا کہ کولمبیا میں امریکی اڈہ قائم ہوتے ہی تڑپ اٹھا تھا۔ اسی بات پر خار کھا کر وینزویلا کو دو ارب کے ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ جو کیوبا میں اس لئے فوجی اڈہ بناتا ہے تاکہ وہاں سے امریکی سرگرمیاں کنٹرول کر سکے۔ جو دنیا میں اسلحے کا دوسرا بڑا تاجر ہے۔ جس کو دنیا کی ضرورت کا 23فیصد اسلحہ فراہم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہے جو دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا بیوپاری ہے۔ جو دنیا کا 30فیصد اسلحہ فراہم کرتا ہے، جو گزشتہ چھ سال سے دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ جس نے صرف دو برس میں عرب امارات اور سعودی عرب کو 25ارب ڈالر کے ہتھیار بیچے۔ جس نے 2008ء میں دنیا بھر میں 36ارب 40کروڑ کا اسلحہ فروخت کیا۔ 2009ء میں اسلحے کی فروخت 37ارب 90کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے دنیا کے 27ممالک اسلحہ خریدتے ہیں۔ ان 27میں سے 20ایسے ملک ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی ملک سے برسر پیکار ہیں۔ امریکی اسلحے کی فروخت سے جہاں روس جیسی طاقت کو ہر روز نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہیں عالمی امن و سلامتی بھی دائو پر لگ رہی ہے۔ امریکہ سے اسلحہ خریدنے والے جن13 ممالک کی فہرست دی گئی ہے ان میں پاکستان، سعودی عرب، عراق، متحدہ عرب امارات، کویت، مصر، کولمبیا، یمن، بحرین، اردن، روس اور تیونس شامل ہیں۔ صرف ان ممالک کو 2006ء اور 2007ء میں امریکی اسلحہ کی فروخت 16.2؍ارب ڈالر رہی جبکہ مجموعی طور پر 32؍ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت ہوا۔ 2001ء میں جب جارج ڈبلیو بش نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا اس سال کی نسبت 2007ء میں یہ فروخت تین گنا سے بھی زیادہ تھی۔ امریکہ اسلحہ فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ صرف 2007ء میں اس نے تقریباً7454 ملین ڈالر کا اسلحہ دنیا بھر کو فراہم کیا۔ خود امریکہ کا اپنا دفاعی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ مثلاً 2008ء کا امریکی دفاعی بجٹ607 بلین ڈالرتھا جبکہ دنیا میں دوسرے نمبر پر چین کا دفاعی بجٹ تھا جو کہ84.9 بلین ڈالر تھا۔ دنیا کے پہلے اور دوسرے بڑے دفاعی بجٹ کے فرق سے ہی پتا چلتا ہے کہ امریکی دفاعی صنعت کے پاس کرنے کیلئے کتنا کام ہے۔ امریکہ میں بینکوں، گاڑیاں بنانے والے کارخانوں سے لے کر ریٹیل اسٹورز کی چین تک دیوالیہ ہو جاتی ہیں، مگر اسلحہ ساز کمپنیوں کا کام نہیں رکتا۔ اس صنعت میں طاقتور سیاست دانوں سمیت کئی حکمراں طبقوں کے مفادات ہیں اور ایسا لگتا ہے پوری دنیا میں ہونے والی جنگوں سے ہونے والے انسانی، جانی و مالی نقصانات اور قدرتی ماحول کی تباہی سے زیادہ اہم ان کا وسیع تر منافع ہے۔ ویسے بھی یہ جنگیں امریکہ سے باہر لڑی جاتی ہیں۔ ان میں ہلاک ہونے والے لوگ غیر سفید فام ہوتے ہیں۔

تازہ ترین