• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک شخص کو مقتدر قوتوں کے گلے لگانے سے ملک مستحکم نہیں ہوتا، جسٹس فائز عیسیٰ

کراچی(اسٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہےکہ تاریخ عکاسی کرتی ہے کہ جب ادارے اپنے دائرہ اختیارسے تجاوز کرتے ہیں تولوگوں کے بنیادی حقوق پامال ،ملک کمزور ہوتاہےبلکہ ملک ٹوٹ بھی جاتاہے،کمزورجمہوریت سے دشمن فائدہ اٹھاتاہے71 ء میں ایساہی ہوا کہ ہم طاقت کے بل بوتے پر کچھ نہ کرسکے، پاکستان میں خبروں کی نشرو اشاعت پر قدغن لگادی گئی ہے،بخوبی واقف ہوں کہ کچھ چینلزٹیلی وژن پر نظر نہیں آتے کیونکہ کیبلز آپریٹرز کو فون کے زریعے حکم دیاہےکہ ان کی نشریات نہ دکھائیں، جب خوف اس حد تک بڑھ جائے کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کےلیے عدالتوں سے رجوع نہ کریں تو یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ بنیادی حقوق بھرپور طریقے سے رائج ہیں،جمہوریت کے استحکام کےلیے آزاد عدلیہ کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کی بھی ضرورت ہے،عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے مجھ سمیت ہر سرکاری و عوامی عہدیدار پر آئین کی پاسداری کرنا لازم ہے،حکو مت کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ سرکاری اشتہار اپنی مرضی کے چینلز اور اخبارات کو ہی دیں اور اس طرح سے ان کا معاشی استحصال کریں اور مجبور کریں کہ وہ حکومت کے خلاف یا کسی حکومتی ادارے یا کسی حکومتی شخص پر تنقید نہ کریں یا کسی صحافی کو برطرف کریں، موبائل فونز کے ٹیکسوں پر حکم امتناع کا فیصلہ غلط تھا ، ملک کو 100؍ ارب کا نقصان ہوا، کوئی ملک کسی ایک شخص کو مقتدر قوتوں کے گلے لگانے سے مستحکم نہیں ہوتا کیونکہ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ جب مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو ہمارے ملک کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کورشید رضوی سینٹرفارکنسٹی ٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس کے تحت آئی بی اےسٹی کیمپس کے جے ایس آڈیٹوریم میں منعقدہ مزدورقوانین کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ 72 سال پہلے بغیر جنگ لڑے آزادی حاصل کی ، ایک سوچ تھی ، ایک نظریہ تھا اور اس سوچ اورنظریے پر یقین رکھنے والوں نے دوسروں کو قائل کیا اور ناممکن ممکن میں تبدیل ہوگیااس کوہم ایک معجزہ ہی سمجھیں اس معجزہ کو برقرار اور محفوظ رکھنے کے لیے اس ملک کی عوام نے ایک طریقہ کار مہیاکردیا۔ اس طریقہ کارکو ہم آئین کہتے ہیں جس کا پورا نام آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے آئین کا آغاز ہوتا ہے ایک مختصر تمہید سے، جس میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ عوام نے یہ آزاد ملک حاصل کیا۔ اور قائداعظم محمدعلی جناح نے یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا۔ آئین کی تمہید میں مزید کہا گیا ہے کہ جمہوریت کو قائم رکھنا ایک فریضہ ہے اور یہ فریضہ اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ عوام ظلم وستم سے محفوظ رہیں گے۔ آئین کی تمہید مزید کہتی ہے کہ اگر ہم انہی جمہوری اصولوں پر گامزن رہیں گے توہماری قومی سالمیت برقرار رہے گی۔ تمہید میں آزاد عدلیہ کا بھی بالخصوص ذکر ہے آئین 1973 میں مرتب کیا گیا مگر اس کی تمہید 1949 میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور اس وقت کی پارلیمان نے مرتب کی اور اس کی قرارداد مقاصد کانام دیاگیا۔ آئین کی شق2-A میں قرارداد مقاصد کو آئین کا بنیادی حصہ قرار دیا گیا ہے۔ آئین کے شروع ہی میں بنیادی حقوق کا ذکرہے اور یہ واضح طور پرکہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق سے کوئی بھی عمل اور قانون متصادم نہیں ہوسکتا۔آج کی محفل کسی حدتک ان بنیادی حقوق ہی سے متعلق ہے آئین کی شق 199 اور شق(3) 184 کے ذریعے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ بنیادی حقوق پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو شق (3)184 کے استعمال سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جن بنیادی حقوق کی عملداری کی جارہی ہے وہ ایسی ہیں جو مفاد عامہ سے منسلک ہے اس کے برعکس عدالت عالیہ کے لیے یہ لازم نہیں کہ جن بنیادی حقوق کی عملداری کی جاری ہے وہ مفاد عامہ سے منسلک ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ بنیادی حقوق سے تجاوزے کرے تو عدلیہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اسے روکے۔
تازہ ترین