• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس نیول کمانڈر کی گرفتاری‘ ان سازشوں کی ایک اور کڑی ہے جو بھارت قیام پاکستان کے وقت سے ہی اسے مسلسل عدم استحکام سے دوچار کرنے اور نقصان پہنچانے کیلئے کرتا آیا ہے۔اس نے پہلاوار جموں و کشمیر اور دوسری مسلم ریاستوں کو پاکستان میں شامل ہونے سے روکنے کیلئے ان پر زبردستی قبضہ کرکے کیا، پھر مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں عملی فوجی مدد کی جس کا اعتراف بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے ڈھاکہ میں بڑے فخر سے کیا۔ تقریباً سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی وہ پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم سے باز نہیں آیا اور اب بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینے کیلئے بے دریغ پیسہ اور اسلحہ استعمال کررہا ہے۔ پاکستان اس کے ٹھوس شواہد پہلے بھی بھارتی حکمرانوں کو پیش کرچکا ہے مگر ’را‘ کے ایک بڑے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد اس حوالے سے شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ ملزم کل بھوشن یادیو جو سلیم عمران کے نام سے اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ پاکستان کی مغربی سرحد کے نزدیک افغانستان کے مختلف شہروں میں موجود تقریباً ڈیڑھ درجن قونصل خانوں میں سے ایک میں ملازمت کا ڈھونگ رچائے ہوئے تھا جو بھارت نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی مدد کیلئے قائم کررکھے ہیں۔ قندھار کے راستے بلوچستان آنا جانا اس کا معمول تھا۔ حساس ادارے پچھلے 8ماہ سے اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ گرفتاری کے بعد اس نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی نیوی میں کمانڈر کے رینک کا افسر ہے اور بلوچستان کے علیحدگی پسند لیڈروں اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے اس کے رابطے ہیں۔ اس کے قبضے سے خفیہ دستاویزات، نقشے اور حساس آلات کے علاوہ افغانستان کی موبائل سمیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور بلوچستان اور کراچی کی علیحدگی اس کا مشن تھا اور وہ تخریبی کارروائیوں کیلئے کالعدم تنظیموں کی مالی مدد کے علاوہ اسلحہ بھی فراہم کرتا تھا۔ ملزم کو کوئٹہ سے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اس کے نیٹ ورک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں گی۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بھارتی ایجنٹ کی سرگرمیوں کا زیادہ تر محور جنوبی بلوچستان میں مکران کا ساحلی علاقہ تھا جہاں گوادر کی عظیم الشان بندرگاہ تکمیل کے مراحل میں ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری کا نقطہ آغاز اور پاکستان میں معاشی انقلاب کا چمکتا ہوا باب ہے۔ بھارت سمیت بعض ہمسایہ ممالک اور مغربی طاقتیں گوادر پورٹ کو اپنے اقتصادی مفاد کے پہلے بھی خلاف سمجھتی تھیں مگر اقتصادی راہداری کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد وہ اور زیادہ متفکر ہیں، خصوصاً بھارت اسے ہرقیمت پر سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور مبینہ طور پر گرفتار ہونے والے بھارتی ایجنٹ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے نیٹ ورک کے ذریعے بلوچ رہنمائوں کو اس کی مخالفت پر آمادہ کرے۔ بھارت ایک عرصہ سے بحیرہ عرب اور خلیج فارس تک بحرہند کی سپرپاور بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسکی شدید خواہش ہے کہ بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے الگ کرکے اس خواب کو عملی شکل دے۔ غالباً اسی لئے اس نے بھارتی بحریہ کے ایک افسر کو یہ مشن سونپا ہے۔ پاکستان کو اپنے سٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کےلئے بھارت کے ساتھ اس معاملے کو سختی کے ساتھ اٹھانا چاہئے اور عالمی برادری کو بھی اس کے نتائج و عواقب سے باخبر کرنا چاہئے۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں بھارت کی مداخلت کے شواہد اور بھی بہت ہیں مگر بھارتی نیوی کے افسر کی گرفتاری سے ایک اور ناقابل تردید ثبوت مل چکا ہے۔ بھارت کو خود بھی اس کی تحقیقات کرکے پاکستان کو مطمئن کرنا چاہئے اور بلوچستان اور کراچی میں ’را‘ کی مجرمانہ سرگرمیوں کو فوری طور پر روکنا چاہئے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں تنازع کی بنیادی وجہ یعنی جموں و کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر برصغیر میں پائدار امن کا قیام اور باہمی اعتماد کی بحالی ممکن نہیں۔
تازہ ترین