• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی تیل تنصیبات پر حملہ: مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ جائے گی؟

سعودی تیل تنصیبات پر حملہ: مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ جائے گی؟
14ستمبر کو آرامکو کی تنصیبات پر حملے کے بعد آسمان پر دھویں کے کثیف بادل چھائے ہوئے ہیں

14 ستمبر کو سعودی عرب کی قومی آئل کمپنی، آرامکو کی تنصیبات پر ڈرون حملوں کے باعث دنیا کو تیل کی نصف رسد معطّل ہو گئی، جس کے نتیجے میں اقوامِ عالم میں سراسیمگی پھیل گئی۔ یاد رہے کہ تیل کی پیداوار کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو کہ جس نے کبھی اس سے تیل نہ خریدا ہو۔ لہٰذا، اس واقعے کے بعد دُنیا کا تشویش میں مبتلا ہونا قابلِ فہم ہے۔ گرچہ فی الوقت اس سلسلے میں تفصیلات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن ابتدائی اطلاعات کے مطابق آرامکو کی بقیق آئل فیلڈ اور خریص آئل پراسیسنگ پلانٹ پر حملوں کی ذمّے داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کر لی ہے۔

ڈرون حملوں کے فوراً بعد ہی تیل کی تنصیبات میں آگ بھڑک اُٹھی اور آسمان پر دھویں کے کثیف بادل چھا گئے۔ سعودی حکومت نے حملوں کی تصدیق کے بعد آگ پر قابو پانے کا دعویٰ کیا، جب کہ اگلے روز بتایا گیا کہ بم باری کے باعث 57لاکھ بیرل تیل کی سپلائی معطّل ہو گئی ہے، جو سعودی عرب کی تیل کی یومیہ رسد کا نصف ہے۔ آرامکو تنصیبات پر بم باری کے بعد امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ایران کی جانب سے کیا گیا ہے اور اگر سعودی عرب اشارہ دے، تو وہ اس کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

سعودی تیل تنصیبات پر حملہ: مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ جائے گی؟
حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی باقیات کو نمایش کے لیے رکھا گیا ہے

 تاہم، ایرانی صدر، حسن روحانی نے ٹرمپ کے دعوے کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی الزام تراشی دراصل دھوکا دہی ہے۔ اقوامِ عالم کی جانب سے انتہائی اہمیت کی حامل غیر فوجی تنصیبات پر حملوں کی پاکستان سمیت دنیا بھر نے مذمّت کی۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کی وجہ سے جہاں تیل کی تجارت کو نقصان پہنچا، وہیں سعودی عرب، ایران کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی افتراق و انتشار کا شکار ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری ذرایع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آرامکو کی دو اہم ترین تنصیبات پر بم باری کی گئی۔ ان میں سعودی دارالحکومت، ریاض سے تقریباً 60کلو میٹر کے فاصلے پر واقع بقیق آئل فیلڈ اور اس سے بھی 200کلو میٹر دُوری پر موجود خریص آئل پراسیسنگ پلانٹ شامل ہیں۔ سعودی حکام کے مطابق، بقیق آئل فیلڈ سپلائی ہونے والے تیل کا ایک فی صد، جب کہ خریص پراسیسنگ پلانٹ 7فی صد تیل صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بم باری کے نتیجے میں تیل کی تنصیبات میں آگ لگنے سے 57لاکھ بیرل تیل کی سپلائی معطّل ہونے کے علاوہ تیل صاف کرنے والی مشینری بھی تباہ ہوئی، جس کے پوری دنیا پر دُور رس اثرات مرتّب ہوں گے۔ 

سعودی تیل تنصیبات پر حملہ: مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ جائے گی؟
عمران خان اپنے دورۂ سعودی عرب کے موقعے پر شاہ سلمان سے ملاقات کرتے ہوئے

سعودی حکومت نے تیل کی رسد میں کمی سے پیدا ہونے والے بحران کے تدارک کے لیے تیل کے محفوظ ذخائر سے سپلائی شروع کر دی۔ واضح رہے کہ دنیا میں 10فی صد سے زاید تیل سعودی عرب فراہم کرتا ہے اور اس سے تیل خریدنے والوں میں برِ اعظم یورپ، ایشیا اور شمالی و جنوبی امریکا کے ممالک شامل ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب تین سال تک ہمیں مؤخر قیمتوں پر تیل فراہم کرے گا۔ ہماری درآمدات کا بڑا حصّہ تیل پر مشتمل ہے، جس پر ہر سال ہمارے زرِ مبادلہ کا 60فی صد (کم و بیش 9ارب ڈالرز سالانہ) خرچ ہوتا ہے۔

آرامکو کی تنصیبات پر حملوں سے تیل کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہونے کے سبب 1992ء کے بعد پہلی مرتبہ تیل کی قیمتوں میں یک دم 20صد اضافہ ہوا۔ نتیجتاً، سعودی عرب نے فوری طور پر اپنے تیل کے محفوظ ذخائر سے تیل کی رسد شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے بھی تیل کی سپلائی میں اضافے کا حکم دیا۔ سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے بر وقت اقدامات کی وجہ سے کوئی افراتفری دیکھنے میں نہیں آئی۔ 

سعودی تیل تنصیبات پر حملہ: مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ جائے گی؟
تیل تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو کی سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان سے ملاقات

 اس صورتِ حال نے بعض تجزیہ کاروں کو1974ء کی عرب، اسرائیل جنگ کے فوراً بعد کا منظر نامہ یاد دلا دیا کہ جب سعودی عرب نے تیل کی ترسیل میں کمی کر کے مغربی ممالک پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ دراصل، اُس وقت سعودی فرماں روا، شاہ فیصل نے امریکا اور یورپ کے ذریعے اسرائیل پر دبائو ڈالنے کے لیے یہ حکمتِ عملی اپنائی تھی، جس میں وہ کام یاب بھی رہے۔ اُس دَور میں ’’آئل وار‘‘ سب سے اہم عالمی موضوع تھی۔ تاہم، آج صورتِ حال مختلف ہے، کیوں کہ اب امریکا خود زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔ نیز، اس وقت دنیا بھر میں تیل کی رسد کے مقابلے میں اس کی کھپت کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین برس سے تیل کی قیمتیں 50ڈالرز فی بیرل پر برقرار تھیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ جب یہ 28ڈالرز فی بیرل تک گر گئیں، جس کے سبب تیل پیدا کرنے والے ممالک اقتصادی بحران کا شکار ہونے لگے ۔ تاہم، سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد برینٹ کروڈ آئل کی قیمت 71ڈالرز فی بیرل سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ تیل کی ترسیل معمول پر آنے کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ایک بار پھر کم ہو جائیں گی، لیکن اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی فوجی تصادم کی شکل اختیار کرتی ہے، توپھر تیل کی قیمتیں 80ڈالرز فی بیرل سے بھی تجاوز کر سکتی ہیں۔

سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد بعض نئے حربی پہلو دفاعی ماہرین کی توجّہ کا مرکز ہیں۔ اس واقعے میں حوثی باغیوں کی جانب سے 10ڈرون طیّارے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ کسی ملیشیا کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں ڈرونز کا استعمال بہ ذاتِ خود ایک تشویش ناک اَمر ہے، کیوں کہ اس وقت ڈورن حملوں کے اعتبار سے امریکا سب سے زیادہ شُہرت رکھتا ہے۔ اس نے بالخصوص پاکستان کے سرحدی علاقوں اور افغانستان میں ڈرون طیّاروں کو بڑی کام یابی سے استعمال کیا۔ اوباما کے دَورِ صدارت میں یہاں کم و بیش 450ڈرون حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی قیات کا صفایا ہوا، جب کہ پاکستان نے امریکی ڈرون حملوں پر شدید احتجاج کیا تھا۔ 

ڈرون طیّاروں کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے نہ صرف ہدف کو نشانہ بنانے پر آنے والی لاگت کم ہو جاتی ہے، بلکہ حملہ آور کو جانی نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ ڈرون طیّاروں کو ریموٹ کنٹرول سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ کسی ملک کے ڈورنز گرائے جانے پر کافی شور و غوغا کیا جاتا ہے، لیکن دفاعی ماہرین اس نقصان کو قابلِ ذکر نہیں گردانتے۔ بہر کیف، ڈرون حملوں میں اضافے کے بعد دفاعی ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اب فضائیہ کا دَور بھی گزر چکا ہے یا کم تر ہو گیا ہے، جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ایئر فورس دفاعی حکمتِ عملی کا اہم ترین جُزو رہی ہے۔

فضائیہ کی اہمیت کے سبب ہی یہ کہا جاتا تھا کہ دورانِ جنگ جس فریق نے فضائوں کا کنٹرول حاصل کر لیا، وہ جیت گیا۔ اس ضمن میں 1967ء کی عرب، اسرائیل جنگ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ 6جون 1967ء کی صبح اسرائیلی طیّاروں کی ایک بڑی تعداد نے مصر، اُردن اور شام کی فضائیہ کو تہس نہس کر کے اس جنگ میں کام یابی حاصل کی تھی۔ تاہم، اس واقعے کے 50برس بعد جنگی طیّاروں اور پائلٹس کی جگہ ریموٹ سے چلنے والے ایئر کرافٹس نے لے لی ہے، جو بڑی کام یابی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ڈرون طیّاروں کا تیکنیکی نام، UAVیا Unmanned Aerial Vehicle ہے۔ ان ریموٹ کنٹرولڈ طیّاروں کو کمپیوٹر پروگرامنگ کے ذریعے اپنے ہدف کے بارے میں احکامات دیے جاتے ہیں۔ گرچہ ڈرونز استعمال میں آسان اور فضائیہ کے دیگر ہتھیاروں کے مقابلے میں خاصے سستے ہوتے ہیں، لیکن یہ وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملے کے نتیجے میں کروڑوں یا اربوں ڈالرز کے نقصان کی صورت لگایا جا سکتا ہے۔ نیز، یہ انسانی ہدف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں، جیسا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت کا صفایا اور القاعدہ کے بانی، اُسامہ بن لادن کے بیٹے، حمزہ بن لادن کی موت۔

ڈرون طیّاروں کو پہلی مرتبہ 1960ء میں ویت نام میں خفیہ نگرانی کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ جسامت کے لحاظ سے یہ انسانی ہتھیلی سے لے کر چھوٹے طیّارے کے مساوی ہوتے ہیں۔ اس وقت ڈرونز کو حملوں، خفیہ معلومات جمع کرنے، ہتھیاروں اور دیگر دفاعی ساز و سامان کی ترسیل، فوجی روابط اور میزائل ڈیفنس سسٹم کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیز، یہ کم لاگت اور مختصر جسامت کی وجہ سے غیر ریاستی عناصر اور ملیشیاز کے لیے بھی خاصی کشش رکھتے ہیں اور سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد اینٹی ڈرون سسٹم کی تیاری ناگزیر ہو گئی ہے۔

ٹرمپ نے سعودی عرب پر حملے کا الزام ایران پر عاید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ’’لاکڈ اینڈ لوڈڈ‘‘ ہیں۔ فوجی اصطلاح کی رُو سے کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سعودی حکومت کے اشارے کے منتظر ہیں۔ واقعے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو ریاض پہنچ گئے، جہاں انہوں نے سعودی حکومت کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے ایران کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

تاہم، ایران نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حوثی باغیوں کی کارروائی ہے، جو سعودی عرب سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ 2015ء میں اُس وقت شروع ہوئی کہ جب حوثی ملیشیا نے یمنی صدر، منصور ہادی کو سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ بعد ازاں، سعودی عرب نے 6عرب ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں کہ ایران حوثیوں کی مالی و فوجی معاونت کرتا ہے اور اس وقت یمن ہی سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کا مرکز ہے، جب کہ اس سے قبل شام میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، جہاں ایران اور رُوس نے شامی صدر، بشار الاسد کی مالی و فوجی مدد کرتے ہوئے سعودی عرب کی حمایت یافتہ اپوزیشن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم، اس دوران شام میں دَورِ حاضر کے سب سے بڑے انسانی المیے نے جنم لیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے۔ امریکی صدر نے تو سعودی عرب کو ایران کے خلاف کارروائی کے لیے مدد کی پیش کش کر دی ہے، مگر مستقبل کا دارومدار سعودی عرب کے ردِ عمل پر ہے۔ بم باری کے بعد اپنے ابتدائی بیانات میں سعودی فرماں روا، شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس کا جواب دیں گے۔‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی، جس میں اقوامِ متّحدہ کو بھی شامل کیا جائے گا۔

اس موقعے پر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’اب ہم تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔ ہم کسی غرض کے بغیر ہی اپنے اتحادی، سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال امریکا، مشرقِ وسطیٰ سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دوسری جانب مغربی ممالک کی جانب سے بھی سعودی عرب پر حملے کی شدید مذمت کی گئی۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک نے تیل کی ترسیل متاثر ہونے کے عمل کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔

علاوہ بریں، نیٹو کے سربراہ نے بھی حملے کے غیر معمولی اثرات کا ذکر کیا، جب کہ رُوس نے کہا کہ امریکا اور اتحادیوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے، تاکہ یہ واقعہ کسی بڑے نقصان کا سبب نہ بنے، حالاں کہ شام میں رُوسی بم باری کی وجہ سے انسانی جانوں کا جتنا زیاں ہوا، اُس نے افغانستان کی یاد تازہ کر دی۔ پھر رُوسی صدر، ولادیمیر پیوٹن نے اپنی ’’آئرن مین ڈپلومیسی‘‘ کے تحت شامی مسئلے کے جمہوری حل کو روکنے کے لیے کم از کم نصف درجن مرتبہ ویٹو کا اختیار استعمال کیا۔

نیز، سلامتی کائونسل کے شام سے متعلق روڈ میپ کو بھی سبو تاژ کیا اور شامی حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں سے متعدد خواتین اور بچّوں کے قتلِ عام سے بری الذّمہ قرار دلوایا۔ تاہم، اوباما جیسے کم زور امریکی صدر کی موجودگی، مغربی ممالک کی شامی مسلمانوں سے عدم دل چسپی اور اسلامی دنیا کے منقسم ہونے کی وجہ سے پیوٹن کا گھنائونا کردار دنیا کے سامنے نہ آ سکا۔ شام میں جنم لینے والے انسانی المیے کا ایک رُوپ بحرِ روم میں غرقِ آب ہونے والے شامی مہاجرین کی صورت بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس وقت سعودی و ایرنی حکم ران خاصے تدبّر سے کام لے رہے ہیں اور براہِ راست تصادم سے گریزاں ہیں، جو یقیناً ایک دانش مندانہ اقدام ہے۔ اسی دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم، عمران خان بھی سعودی عرب گئے۔ اس موقعے پر سعودی حکام نے انہیں مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کا یقین دلایا۔ 

گرچہ اس سے قبل بھی عمران خان دو مرتبہ سعودی عرب جا چکے ہیں، لیکن تب ان کے دورے کا مقصد قرضوں کا حصول تھا، جس میں انہیں کام یابی حاصل ہوئی۔ کئی تجزیہ کار سعودی عرب اور ایران کے تنازعے کو حسّاس قرار دے کر پاکستان کو اس سے دُور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت تقریباً 50لاکھ پاکستانی باشندے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں ملازمت کر رہے ہیں۔

یہ پاکستانی تارکینِ وطن زرِ مبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ پھر سعودی عرب نے ہر بحران میں پاکستان کا ساتھ دیا، چاہے یہاں کوئی بھی برسرِ اقتدار ہو۔ سعودی عرب پاکستانی قوم کو اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی سعودی عرب پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سب سے آگے ہے اور متحدہ عرب امارات بھی اس کی تقلید کر رہا ہے۔ بلاشُبہ اس میں سعودی عرب کے بھی مفادات ہوں گے، لیکن ہمیں دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفّظ کرنا ہو گا۔

تازہ ترین