• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی بات سن کر میں ایک دم پریشان ہوگیا اور اس کا منہ تکنے لگا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ صورتحال میرے لئے غیر متوقع تھی۔ میں حساب کتاب پر نظر ڈال رہا تھا جب اس نے اچانک کہا کہ اب بچے تین سے دو کھانوں(Meals) پر آگئے ہیں اور دو دنوں میں بچوں کے چہرے مرجھا گئے ہیں حالانکہ اللہ پاک نے بچوں کو بڑی لچک اور قوت برداشت عطا کی ہوتی ہے۔

یہ 340یتیم اور غریب بچوں کا اسکول ہے۔ اسکول رہائشی ہے چنانچہ پانچ چھ مقامی بچوں کے علاوہ باقی سب وہیں رہتے ہیں۔

ان میں سے 90فیصد یتیم ہیں، دس فیصد اس قدر غریب کہ ان کی مالی حالت یتیموں سے بھی زیادہ قابلِ رحم ہے۔

اس اسکول میں بچوں کو رہائش، کھانا، یونیفارم، کپڑے، کتابیں، علاج معالجے غرض کہ زندگی کی ساری ضروریات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

چھٹی جماعت سے لے کر بی اے تک بچیاں یہیں سے امتحانات پاس کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر، سلائی کڑھائی وغیرہ کی تربیت حاصل کرتی ہیں، جو بچیاں یونیورسٹی سے ایم اے پرائیویٹ کرنا چاہیں انہیں اس مقصد کے لئے ساری سہولیات دی جاتی ہیں۔

ان بچوں اور بچیوں کے خاندانی پسِ منظر کا اس سے اندازہ لگائیں کہ کوئی دس پندرہ طلبا و طالبات سے زیادہ بچیاں بچے عید پر بھی گھر نہیں جاتے اور اکثر کی تو جانے کی کوئی جگہ ہی نہیں۔ گزشتہ سال اس اسکول کی ایک بچی میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں اول پوزیشن لے گئی۔ رزلٹ ہمیشہ سو فیصد رہتا ہے اور اکثریت شاندار نمبر حاصل کرتی ہے۔ میٹرک، ایف اے، بی اے کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی تربیت اور کردار سازی پہ بہت توجہ دی جاتی ہے۔

اس اسکول کے طلبا و طالبات سیکولر تعلیم کے ساتھ ساتھ وفاق المدارس کے امتحانات پاس کرتے ہیں اور اعلیٰ پوزیشنیں بھی حاصل کرتے ہیں۔ اپنی مرضی کے مطابق کچھ قرآن مجید حفظ بھی کرتے ہیں۔ الحمدللہ اساتذہ بھی محنتی ہیں اور جذبے سے پڑھاتے اور پڑھاتی ہیں۔ لڑکوں کا اسکول الگ ہے اور بچیوں کا الگ۔

میں چند برسوں سے ان کے معاملات کی نگرانی کرتا ہوں اور اسے ایک بھاری ذمہ داری سمجھتا ہوں کیونکہ اس میں سرخروئی بخشش کا ذریعہ بن سکتی ہے اور ناکامی جہنم کا ایندھن بنا سکتی ہے۔

اس لئے جب منتظم نے کہا کہ گزشتہ تین چار دنوں سے بچے تین کے بجائے دو کھانوں پر آگئے ہیں تو پریشانی اور صدمے کی لہر میرے سارے جسم میں سرایت کرگئی۔

میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کے پاس سال بھر کا بجٹ موجود تھا تو کھانا گھٹانے کی نوبت کیوں آئی۔

اس نے خورونوش اور کچن کی اشیاء کی فہرست اور رسیدیں مجھے دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس سے قبل ہمارا کچن کا خرچہ تقریباً دو لاکھ روپے ماہانہ تھا لیکن جب سے ہم پاکستان سے ریاست مدینہ میں آئے ہیں مہنگائی نے سارا بجٹ برباد کردیا ہے اور نئی حکومت کی مہربانیوں اور برکات کے سبب ہمارا کچن کا خرچہ تین لاکھ روپے سے بڑھ گیا ہے۔ اس لئے ہمیں مجبوراً تین کھانوں کے بجائے دو کرنا پڑے ہیں۔ یونیفارم، اسٹیشنری، دوائیوں وغیرہ کی قیمتیں بھی بےلگام ہو کر اوپر جارہی ہیں جب کہ ہمارے بہت سے ’’ڈونر‘‘ معذرت کر گئے ہیں۔

کچھ چھوٹے کاروباری حضرات جو کئی برسوں سے ماہانہ مدد کرتے تھے اب یہ کہہ کر معذرت کر گئے ہیں کہ ان کا کاروبار ’’انصاف کے طفیل‘‘ ٹھپ ہو گیا ہے۔ کچھ حضرات مالی نقصان کے سبب مدد کرنے سے معذور ہو گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارا اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ ریاست مدینہ میں ہمارے معاملات بہتر ہوں گے، زندگی کی آسانیاں میسر ہوں گی۔ ادارے پھلیں پھولیں گے لیکن نئی حکومت کی برکات سے ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان 340یتیم اور مستحق بچوں کی ذمہ داری کیسے نبھائیں گے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ بچے دن رات حکمرانوں کی ’’درازی عمر‘‘ اور ’’درازی اقتدار‘‘ کے لئے ’’دعائیں‘‘ مانگتے ہیں۔

ادارے کا منتظم نہایت نیک انسان ہے، دردمند دل اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔ جتنا وقت بچتا ہے وہ چندہ اکٹھا کرنے میں صرف کردیتا ہے اور سارا کام بےلوث اور رضاکارانہ کرتا ہے۔ وہ بذات خود ایک اعلیٰ یونیورسٹی سے ایم بی اے ہے اور رضائے الٰہی کے لئے یتیم بچوں کی خدمت کے لئے زندگی وقف کر چکا ہے۔

پریشانی اور ذہنی دبائو نے اسے باتیں کرنے پر مجبور کردیا تھا اور میں اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر گفتگو تحمل سے سن رہا تھا۔ میں نے اس کی ڈھارس بندھانے کے لئے کہا کہ ان شاء اللہ فنڈز کا انتظام کرتے ہیں۔

آپ آج سے بچوں کو تین وقت کھانا دینا شروع کریں، میری بات سن کر اسے قدرے سکون ملا۔ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ہمارے دانشور حضرات، لکھاری، میڈیا کے سورج اور ستارے دن رات روس، امریکہ، افغانستان، ایران، ہندوستان وغیرہ کی باتیں کرتے، آسمان سے تارے توڑ کر لاتے اور مستقبل بینی کے شاہکار پیش کرتے ہیں لیکن کیا انہیں زمینی حقائق کا علم نہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ مہنگائی نے نصف قوم کو غربت اور بھوک کی وادی میں دھکیل دیا ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، مزدوروں کو مزدوری نہیں ملتی کیونکہ ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں، خود کشیوں میں اضافہ ہورہا ہے، غربت نے جرائم میں بھی اضافہ کردیا ہے، پولیس مجرم بن چکی ہے، اسپتالوں میں غرباء کو مفت علاج کی سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔ ملک کی تقریباً چالیس فیصد آبادی کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں جب کہ ماشاء اللہ ہمارے لکھاریوں، دانشوروں اور میڈیا حضرات کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔

رہے حکمران تو اقتدار کی لذت اور نشہ ویسے ہی عوام سے رشتہ توڑ دیتا ہے، حکمران جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں ان کے مسائل سے بے خبر ہوجاتے ہیں، جوڑ توڑ، محلاتی سازشوں اور گروہی سیاست میں مصروف ہو کر اقتدار کو طول دینے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

مودی اور ٹرمپ کے اسیر حکمران اپنے عوام سے بیگانہ ہو چکے ہیں، ریاست مدینہ کے خواب دیکھنے والے عوام اب حکمرانوں کی درازی اقتدار کے لئے ’’دعائیں‘‘ مانگ رہے ہیں اور تبدیلی سے مایوس ہوچکے ہیں۔

میں نے اجازت چاہی تو اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب موجودہ حکومت کو خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ ختم کر دینا چاہئے، آبادی گھٹانے کے لئے پولیس اور مہنگائی ہی کافی ہے‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین