• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب عمران خان کے بطور وزیراعظم ابلاغِ عامہ اور ان کی کل گورننس کو بروقت مطلوب معاونت کی فراہمی کے لئے وزارتِ اطلاعات میں تو صورتحال اور قومی ضروریات کے مطابق جدید کمیونیکشن سپورٹ سسٹم قائم کرنے کا کوئی شعور ہی نہیں تو وژن کیا ہوگا۔ جیسے زمانہ جمود میں ’’سب چلتا ہے‘‘، ایسے ہی وزارت روزمرہ روایتی پریس ریلزوں کے اجرا اور ہر دوسرے تیسرے روز مشیر محترمہ کی شوقیہ پریس کانفرنسوں کے طرزِ کہن پر چل رہی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے میڈیا سیل کا بھی کوئی حال نہیں۔ یہ تو سیاسی ابلاغ کی سائنس کی الف، ب سے بھی مکمل محروم ہے۔ پریس اتاشی کا عہدہ ہمارے سفارتخانوں میں کم تر ہو گیا ہے، جو ہے وہ بھی نوکری برائے نوکری۔ وگرنہ تحریک آزادی کشمیر کی جو حوصلہ افزا صورت بنی ہے اور جس طرح ہم روزِ اول کے دشمن سے بڑی نفسیاتی جنگ اور اصل کے مسلسل کے امکانات میں چلے گئے ہیں پھر جس طرح وزیراعظم عمران خان نے اپنے تئیں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مضبوط موقف اور مظلوم کشمیریوں کا سفیر بننے کا اعلان کیا اس کا اور مجموعی صورتحال کا تقاضا تو یہ تھا کہ وزیراعظم وزارت خارجہ، اطلاعات، داخلہ اور کل گورننس کو مطلوب نتیجہ خیز ابلاغی معاونت کی فراہمی کے لئے تیزی سے ظہور پذیر قومی ابلاغی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک ’’سائنٹفک نیشنل کمیونیکشن سپورٹ‘‘ سسٹم قائم کرتے لیکن یہاں تو الٹا قومی میڈیا انڈسٹری اور پروفیشن دونوں کو دبایا جارہا ہے حالانکہ میڈیا تو میڈیا ہی نہیں ہوتا اگر حکومت اس سے تنگ پھنگ نہ ہو لیکن اسمارٹ جمہوری ملکوں میں حکومتیں خود کو میڈیا کی مثبت بیساکھی سے بچانے کے لئے قابل قبول طریق ہائے پبلک ریلشنز اور ایڈووکیسی اختیار کر کے اپنے قومی میڈیا کو کچلتی نہیں، منیج کرتی ہیں لیکن بغیر تبدیلی کے تبدیل حکومت میں عجب ہے کہ ملک کے قومی، تاریخی اور موجود ابلاغی اثاثے کو انتہائی حساس حالت میں جبکہ اس کی بھرپور معاونت مطلوب ہے، حاصل کرنے کے بجائے حکومتی پالیسیاں میڈیا انڈسٹری اور پروفیشن دونوں کی جانب انتہائی بھونڈے انداز میں حریف بن گئی ہیں اور ساری گاڑی ٹویٹس پیغامات اور پیمرا کے نوٹسز پر چلائی جارہی ہے۔ حکومت، اپوزیشن، سیاسی جماعتیں اور سلامتی و جمہوریت کے ستون نہ بھولیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ففتھ جنریشن وار جاری ہے، جس کے سب سے بڑے ہتھیار کمیونیکشن ٹیکنالوجی، متعلقہ پیشے، ان کا جدید نالج اور دستیاب ماہرین ہی ہیں جو شکر الحمدللہ پاکستان میں ہیں لیکن ان کو منظم و مربوط اور محفوظ کرنا ناگزیر ہے۔ ساری جنگ فقط سوشل میڈیا سے ہی نہیں لڑی جا سکتی۔

اب متذکرہ پسِ منظر میں حالاتِ حاضرہ میں قوم کو کئی حساس درپیش چیلنجز میں ایک سے نمٹنے کے لئے ملین ڈالر ٹپ حاضر۔

وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں کا سفیر بننے کا اعلان کر کے خود کو مکمل چارج کیا ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگہ 4جون کو جنرل اسمبلی کے نئے دورانیے کے عہدئہ صدارت پر منتخب ہونے والے نائیجریا کے جناب تجاتی محمد باندے نے اپنی صدارتی مدت کے لئے جو عزم باندھا ہے، وہ جنرل اسمبلی کے کسی صدر کی جانب سے تاریخی اور موجود عالمی صورت میں خطرناک جنگوں کے منڈلاتے بادلوں، محدود خطرناک جارحیت کے ارتکاب، شریر ممالک کی استعماریت کے نئے ماڈل کیلئے گٹھ جوڑ، جغرافیائی سرحدوں کے احترام میں ہوتی کمی، بڑھتی مذہبی بنیاد پرستی اور اس کے نتیجے میں عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کرتی ریاستی دہشت گردی کی بروقت سرکوبی کیلئے ایک ایسا مہذب اور ہمہ گیر بیانیہ ہے، جس سے کوئی رکن ملک اختلاف کر ہی نہیں سکتا۔ ہمارے خانِ اعظم نے تو مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کیلئے اپنی کمنٹمنٹ اس بیانیے کے تین ماہ بعد کشمیریوں اور عالمی برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے بیان کی جبکہ تجاتی محمد کا بیانیہ 3ماہ قبل اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر خیر عالم کے لئے لگادیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں جناب باندے کی اپنے منصب (صدر جنرل اسمبلی) کے حوالے سے کمٹنمنٹ:

"I will explore the robust potential of the convening platform of the office of the president of the General Assembly and use its advocacy tools to promote a multilateral approach to finding workable solutions to the issues confronting us"

جو عزم جنرل اسمبلی کے صدر نے اپنے اس بیانیے میں باندھا ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر کے قابل عملدرآمد حل کیلئے عالمی رہنمائوں، حکومتی و ریاستی سربراہوں میں اس کی ایڈووکیسی ہی کررہے ہیں۔ یاد رہے ایڈوکیسی وہ ابلاغی سرگرمی ہے جو بالائی سطح کے پالیسی اور فیصلہ سازوں اور عملدرآمد کرنے والوں میں کسی بڑے کاز کیلئے ٹھوس دلائل کے ساتھ کی جاتی ہے، جنرل اسمبلی ایسے ہی مخاطبین کا عالمی فورم ہے اور عمران خان مسئلہ کشمیر کے برسوں سے تنازع میں تبدیل ہونے والے مسئلے کی ایڈووکیسی سے حل کے عالمی مشن پر ہیں۔ امید ہے ڈاکٹر ملیحہ لودھی، وزارت خارجہ، پاکستان کا واشنگٹن میں سفارتی مشن، وزارت اطلاعات متذکرہ حقائق سے وزیراعظم کو ان کے خطاب سے پہلے آگاہ کر دیں گے۔

تازہ ترین