• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن کے خلاف ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست خارج ہونے کے بعدایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے کہا ”سارے جج ایک جیسے ہی ہوتے ہیں “جس پر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور میں نے اس پر بھرپور احتجاج کیا تومیرے اُس دوست نے مجھے کسی کتاب کے صفحے کی فوٹو کاپی نکال کر تھما دی اس پر لکھا تھا
مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ کی ایک عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا
”تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی، دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔ تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لیکر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔ بلاشبہ زمانے کے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ متوسط (مڈل ایجز) کی پراسرار "انکویزیشن" وجود نہیں رکھتیں، لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصاف کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں ؟ عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے، جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لیے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک انکا اظہار جرم تھا۔ میں نے حضرت مسیح کو انسان کہا، کیونکہ میرے اعتقاد میں وہ ایک مقدس انسان تھے جو نیکی اور محبت کا آسمانی پیام لیکر آئے تھے، لیکن کروڑوں انسانوں کے اعتقاد میں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں ؟ تاہم یہ مجرموں کا کٹہرا کیسی عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے جہاں سب سے اچھے اور سب سے بْرے، دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں ؟ اتنی بڑی ہستی کے لیے بھی یہ ناموزوں جگہ نہیں !“
میں نے اس تحریر پڑھنے کے بعد اسے کہا ” ممکن ہے دنیا کی سب سے بڑی نا انصافیاں عدالت گاہوں میں ہوئی ہیں مگر پاکستان میں تو عدالت گاہوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو جنرل ضیاء کے زمانے میں بھی کئی جج ایسے تھے جنہوں نے ان حکامات کو ماننے سے انکار کردیا تھا جس کی بنا پر جنرل ضیاء نے انہیں بر طرف کر دیا تھا ، جنرل مشرف نے جب پہلی بار مارشل لا ٴلگایا تھاتوجسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت کئی جج فار غ کر دئیے تھے کہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا ،جب جنرل پرویز مشرف نے دوسری بار وہی اقدام اٹھایاتو اس مرتبہ عدلیہ نے زیادہ ہمت سے کام لیا ہے اور مستعفی ہونے سے انکار کردیا۔جج نظر بند ہوئے ۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلی ۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ججوں کی نظر بندی ختم کی ۔نواز شریف نے لانگ مارچ کے ذریعے انہیں دوبارہ ملازمتیں دلوائیں ۔“
میرا دوست کہنے لگا ”عدلیہ بحالی تحریک پر جوپیسے خرچ ہوئے آپ کے خیال میں وہ کہاں سے آئے تھے۔وکلا کے پرل کانٹی نیٹل سے جو لنچ باکس آتے تھے ان کا بل کون ادا کرتا تھا۔“
میں نے فوراًکہا ” میں نہیں مانتا یہ الزام ہے “ میرا دوست ہنس پڑا اور کہنے لگا ”تم کالم نگار لکھتے ہو کہ ڈاکٹر طاہر القادری لانگ مارچ پر چالیس کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔وہ کہاں سے آئے ہیں ان سے حساب لیا جائے ۔کیا جج بحالی تحریک لانگ مارچ مفت ہوگئے تھے ۔ اچھاکوئی ایسا ثبوت دوکہ اس کیلئے کبھی وکلا نے کہیں چندہ کیا ہو۔آخرجو اربوں روپے کے اخراجات ہوئے وہ کہیں سے تو آئے ہونگے “میں نے کہا ”ہاں صاف صاف الزام لگادو کہ وہ رقم بھی نواز شریف نے فراہم کی تھی “وہ کہنے لگے ” اچھا یہ بتاؤ گذشتہ دنوں جو اصغر خان کیس کا فیصلہ آیا تھا عدلیہ نے اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کرایا۔اس سوال کو بھی چھوڑو۔ یہ بتاؤ کہ نیب کے چیئرمین نے صدر کوسپریم کورٹ کے خلاف توہین آمیز خط لکھا تھااور لگ رہا تھا کہ سپریم کورٹ اس کے خلاف کوئی فیصلہ ضرور دے گی مگر سپریم کورٹ کا مزاج کیوں بدل گیا “میں نے کہا ” میرے دوست تم بہت غلط الزام لگا رہے ہو ۔ تمہارے ساتھ اس موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔
تازہ ترین