• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسا معاشرہ بن چکا جس میں ماتم کے لئے دو ہاتھ اور ایک سینہ کافی نہیں رہا، رونے کے لئے دو آنکھیں بھی بہت کم پڑ گئی ہیں۔ مجھے ابھی تک اس خبر پر یقین نہیں آ رہا کہ سگے بیٹے نے بوڑھے ماں باپ کو گھر کے ایک کمرے میں سال بھر سے قید کر رکھا تھا اور انہیں دن میں ایک بار کھانا دیا جاتا تھا۔یہ خبر تو سمجھ سے بھی باہر ہے کہ پی آئی اے نے مسافروں کے بغیر 82پروازیں فرما کر خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا۔

حج عمرہ کی 36پروازیں مسافروں کے بغیر روانہ ہوئیں۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے بھی سال میں 46خالی طیاروں نے اڑان بھری۔ایمبولینس کی عدم فراہمی کی وجہ سے بچی کی لاش موٹر سائیکل پر گھر منتقل کی گئی۔

’’نیب‘‘ نے قائم خانی سے تجوری کھلوا لی۔ 15کروڑ کا تو صرف سونا برآمد ہوا۔ ’’غیر ملکی کرنسیاں‘‘ ہیرے علیحدہ۔

71پارک صرف کاغذات پر بنانے کا انکشاف اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ایک معمولی سی ’’مکھی‘‘ کا یہ حال ہے تو اس ملک کے ’’مگر مچھوں‘‘ کے پاس کتنا کچھ ہو گا۔

’’نیب‘‘ بھی مکھیوں سے ہی تجوریاں کھلواتا ہے....کبھی مگر مچھوں کے ’’تجورے‘‘ کھلوائے تو اندازہ ہو کہ ووٹ کی عزت کس بھائو بکتی ہے۔

عمران خان نے امریکہ میں کرپشن کے حوالہ سے چینی ماڈل کا حوالہ دیا جبکہ مدتوں سے میرے سیاسی ایمان کا حصہ ہے کہ اس آدم خور نظام کو تیزاب سے غسل دو، تین تین شفٹوں میں جلادوں سے کام لو تو کام چلے گا ورنہ گئے کام سے۔

صرف ’’قائم خانی‘‘ باقی بچیں گے اور ہماری فقط کہانی ہی رہ جائے گی۔اور یہ 24ستمبر 2019کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک تصویر ہے جس میں ڈی جی خان کا گل زمان نامی پاکستانی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے دہکتے انگاروں پر ’’کیٹ واک‘‘ کا ایمان افروز مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور ہم ایک زندہ قوم ہیں جو جلتے کوئلوں پر بھی چہل قدمی کر سکتی ہے۔اور اس ننھے منے جمہوری سکینڈل کا بھی کوئی جواب ہو تو سامنے لایا جائے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں کھربوں روپے کے پرانے کرنسی نوٹ ہی غائب ہو گئے کیونکہ بھٹو زندہ ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور جمہوریت بہترین انتقام ہے۔بلین درخت تو کیا لگانا تھے ایک پودا نہ لگ سکا۔

بقول گورنر سٹیٹ بینک مہنگائی مزید دو سال دھمال جاری رکھے گی حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ دو سال کے بعد تو دھمال میں وہ ابال آئے گا جس کے بعد دیکھنے سننے والوں پر بھی حال چڑھ جاتا ہے۔

قارئین! ہمارے اندرونی بیرونی، مالی اخلاقی حالات کی آئوٹ لائن دیکھ لیں کہ یہ تو زہریلی دیگ کے چند دانے ہیں۔ پوری دیگ کے ’’اندر‘‘ جانے پر تو یونہی سمجھیں دیگ اندر، دم باہر۔ادھر خارجہ کی بھی سن لیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

ٹرمپ سے کہا گیا ’’مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم کرائیں‘‘۔ ٹرمپ کا صاف جواب تھا ’’مودی سے بات کروں گا‘‘ یعنی ڈھاک کے تین پات۔ سچی بات ہے مجھے اس مطالبہ کی سمجھ نہیں آئی کیونکہ مودی کے پتا جی بلکہ ان کے بھی پتا جی اگر چاہیں تو غیر معینہ مدت تک کرفیو جاری نہیں رکھ سکتے۔

کامن سینس کی بات ہے کہ آج نہیں تو کل نہیں تو پرسوں کرفیو نے بہرحال ختم ہونا ہی ہے تو یہاں بغلوں کا بینڈ شروع ہو جائے گا کہ یاروں کا کام ہے۔ رہ گئی ثالثی تو اس پر پہلے ہی مودی جواب دے چکا کہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ایسے داخلہ اور خارجہ ماحول میں اگر موجودہ وزیراعظم کا خیال ہے کہ موجودہ ٹیم کے ساتھ ’’میچ‘‘ جیت جائیں گے تو میں گنہگار ان کے لئے دعا ہی کر سکتا ہوں اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ کوئی مجھے صرف اتنا بتا دے کہ وزیراعظم کی ٹیم دراصل ہے کیا؟ کن لوگوں پر مشتمل ہے اور اب تک ان نابغوں نے کون سا تیر یا توپ چلائی ہے؟

کوئی ٹیم ہے بھی یا نہیں؟باقی چھوڑیں، پنجاب ہی دیکھ لیں جو فیصلہ کن سیاسی میدان ہے اور یہاں ہر طرف گھمسان کا رن جاری ہے، کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں، ہر محاذ پر قدم اکھڑ چکے ہیں اور یہ سوال زبان زد عام ہو چلا کہ پنجاب سے کس بات کا انتقام لیا جا رہا ہے؟

پنجاب کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ شہباز شریف کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چوہدریوں جیسے تجربہ کار، موثر اور ڈلیور کرنے والے میدان میں اتارے جاتے لیکن برا ہو پھولی ہوئی انائوں اور خوش فہمیوں کا کہ ’’پلس‘‘ کرتے کرتے سب کچھ ’’مائینس‘‘ کرا بیٹھے اور یہ سلسلہ کچھ دیر مزید جاری رہا تو میں دیکھوں گا اگلے الیکشن میں پنجاب سے ’’تحریک انصاف‘‘ کو کیا ملتا ہے۔

حیرت ہے ’’بزداریت‘‘ اتنی ہی طاری تھی تو سال ڈیڑھ دو سال بزدار کو دو تین وزارتوں سے گزار کر اسے کچھ ایکسپوژر ہی دے لیتے۔ ایسے تو کوئی اپنا چھابہ، کھوکھا، ریڑھی کسی کے حوالہ نہیں کرتا جیسے پنجاب جیسا صوبہ اس معصوم کے حوالے کر دیا گیا لیکن خیر ہے صوبے نے تو بھگت لیا، خود اپنی ضد کی زد میں آئے تو سمجھ آ جائے گی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی بلکہ ہو چکی ہے۔

’’جیو‘‘ کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں اس خود کشیانہ رویے کی وجہ پوچھی گئی تو میں نے کہا....ہمارے اس خطہ میں تین ضدیں بہت مشہور بلکہ محاورہ بن چکی ہیں۔اول: راج ہٹ یعنی حکمران کی ضددوم: بال ہٹ یعنی بگڑے ہوئے بچے کی ضدسوم: تریا ہٹ یعنی عورت کی ضدمیں نے اپنی اینکر سے کہا ’’ابصا! خود ہی فیصلہ کر لیں آپ لوگ کہ یہ کس قسم کی ضد ہے یا کن ضدوں کا مجموعہ‘‘۔

اگر یہ عمران کا ذاتی فیصلہ ہے تو سو فیصد غیر جمہوری اور آمرانہ ہے کیونکہ دوسری کسی صورت میں ایک بندہ بھی اس فیصلہ کی حمایت نہ کرتا اور اگر یہی سچ ہے تو پھر کسی زرداری، میاں یا خان میں فرق کیا رہ گیا؟مجھ جیسے لوگ جو پچیس چھبیس سال کسی ’’تیسری قوت‘‘ کے خواب دیکھتے اور طعنے سہتے رہے خصوصاً یہ خاکسار جسے مجید نظامی مرحوم نے باقاعدہ لکھ کر طعنہ دیا کہ ’’حسن نثار اک مثالیت پسند آدمی ہے جو تیسری قوت کا ہیولا تراش رہا ہے‘‘ ....ہم کہاں جائیں؟ کہ یہاں تو ’’تیسری قوت‘‘ بھی پہلی اور دوسری قوت کا پرتو بنتی جا رہی ہے تو خیر ہے، اک اور جنگ کی تیاری کرتے ہیں کہ ہر شخص نے اپنے حصہ کا کام کرنا ہوتا ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاسچ پوچھیں تو کبھی کبھی اس صورتحال سے لطف اندوز بھی بہت ہوتا ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کو قطرہ قطرہ پگھلتے اور پیپلز پارٹی یا ن لیگ بنتے دیکھنا درد بھرا لیکن بہت ہی دلچسپ تجربہ ہے۔

خاص طور پر جب ’’دیانت‘‘ اور ’’شفافیت‘‘ میں شگافوں اور دراڑوں کی خبریں سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے اپنے بیڈ روم کا دروازہ بند کر کے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے چہرے پر پولے پولے تھپڑ رسید کروں کیونکہ زناٹے دار تھپڑ مارنے کی ہمت نہیں رہی۔

کمال زوال کا یہ کہ کرپشن کی خبریں بھی مجھے ان سائیڈرز یعنی ’’گھر کے بھیدی‘‘ ہی دیتے ہیں ورنہ میں نے تو مدت ہوئی باہر نکلنا ہی چھوڑ رکھا ہے۔’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی‘‘لیکن اب بھی کبھی کبھی اپنے قلم سے پوچھتا ہوں، یار! کیا میں اب بھی تجھ سے نیزے کا کام لے سکتا ہوں؟

تازہ ترین