• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک کی تہذیب 8ہزار سال پرانی ہے۔ اس میں 1500چمکتے دمکتے سال اسلام کے۔ ایک کی تہذیب 5ہزار سال پرانی مگر دونوں امن اور مفاہمت کی التجائیں کررہے ہیں امریکہ سے، جس کی عمر ایک ہزار سال بھی نہیں ہے۔ یہ ہے پاکستان اور بھارت کی قیادتوں کی مفلسی اور ذہنی کھوکھلا پن۔ سرحد بہ سرحد ہمسائے ہیں۔ سفارشیں کروانے پہنچتے ہیں۔ دس ہزار میل دور واشنگٹن میں اور ذہنی غلامی کیا ہوتی ہے۔ وہ دونوں کو بہت بڑا لیڈر قرار دے رہا ہے۔ اس کی ذہانت کی بھی داد دیجئے۔ جس نے اپنے ملک کے لاکھوں انسانوں کو گھروں میں مقید کر رکھا ہے، انٹرنیٹ بند ہے، شدت پسندی میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کو بھی وہ عظیم لیڈر کا لقب دے رہا ہے جس کے ملک میں انتشار برپا ہے۔ وہ بھی اپنی قوم کا بڑا لیڈر بتایا جارہا ہے۔ یہ ہے قیادت کا عالمگیر قحط۔

احتساب اور انصاف کا آج کل پاکستان پر جتنا غلبہ ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ تو انقلاب ہونا چاہئے تھا۔ سابق صدر، سابق وزیراعظم، سابق وفاقی وزراء، بڑے بڑے جابر افسر جیلوں میں ہیں۔ کبھی یہ تصوّر نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اشرافیہ بھی پسِ دیوارِ زنداں ہوگی۔ تاریخ میں تو اس کو انقلاب ہی کہا جانا چاہئے تھا مگر ملک میں تو انتشار برپا ہے۔ جس انقلاب کے پیچھے کوئی منظّم فکر اور جامع حکمت عملی نہ ہو۔ وہ انارکی کی صورت ہی اختیار کرتا ہے۔ مہذب ملکوں میں احتساب اور انصاف کے نتیجے میں انتشار نہیں ہوتا۔ وہاں جرم کو جرم، کرپشن کو کرپشن خیال کیا جاتا ہے۔ کسی عہدیدار پر ایسا الزام کسی سرکاری ادارے کی طرف سے ہو تو وہ ازخود سرکاری عہدہ چھوڑ دیتا ہے۔ پارٹی کا عہدہ بھی اور خود اس کی پارٹی بھی یہی کارروائی کرتی ہے۔ ہم اخلاقی، آئینی طور پر ایسا نظام تشکیل نہیں دے سکے۔ اس لئے ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔

سندھ کے وزیراعلیٰ کسی وقت بھی نیب کے شکنجے میں آسکتے ہیں۔ اس لئے قدرتی طور پر ایک چیف منسٹر کی جو ہیبت ہونی چاہئے جو ماضی میں ان کے والد محترم کی تھی، سید غوث علی شاہ، ممتاز علی بھٹو، جام صادق علی کی تھی، وہ سید مراد علی شاہ کی نہیں ہے۔ ان کے ماتحت وزیروں کے دلوں میں بھی ان کا کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ یہ وزیر وزیراعلیٰ کی خوشنودی تک نہیں بلکہ جناب آصف زرداری، بلاول زرداری اور فریال تالپور کی خوشنودی تک وزارت کے اہل ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا بھی یہی حال ہے۔ اگرچہ انہیں نیب کا خطرہ ابھی نہیں ہے لیکن وہ عمران خان کی خوشنودی پر منحصر ہیں۔ دیگر وزرائے اعلیٰ کا بھی یہی حال ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزراء کا بھی۔ اسی طرح چیف سیکرٹری، سیکرٹری اختیارات کے ہوتے ہوئے بے اثر ہیں۔ کسی نے ضمانت قبل از گرفتاری کروارکھی ہے، کوئی ضمانت کے حصول کے لئے عدالتوں کے چکر لگارہا ہے، بہت سے بارسوخ سرکاری عہدیدار ریمانڈ پر ہیں، آپ ہی بتائیں انتشار اور کیا ہوتا ہے۔

احتساب عدلیہ کے اختیارات میں بے حساب اضافہ کسی مہذب معاشرے میں یقیناً قابل فخر ہوتا ہے اور اس کے شاندار نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں 2008کے بعد یہ جو اختیارات ان اداروں کو ملے ہیں یقیناً بہتر سمت میں تبدیلی ہے لیکن تبدیلی یا انقلاب مجموعی ہوتا ہے۔ سب ادارے اپنے اپنے اختیارات اور فرائض ایمانداری سے انجام دے رہے ہوں، اپنی حدود میں رہتے ہوئے قدم اٹھا رہے ہوں تو تبدیلی استحکام کا موجب بنتی ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی ساخت بہت کمزور ہورہی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایک ایڈیٹر ہوتا تھا۔ گھر میں باپ، محلے میں بزرگ، جو جوانی اور جوش و جذبے کی ندیوں پر بند باندھتے تھے۔ ان کو ایک سمت دیتے تھے، روایات اور اقدار کو پیش نظر رکھا جاتا تھا تاکہ ماحول میں افراتفری نہ ہو۔ الیکٹرانک میڈیا جو اس وقت معاشرے کے جوش کو سمت دینے پر قادر ہے۔ وہاں ادارتی گرفت کا نہیں ہے۔ بعد از خرابیٔ بسیار اسی ہفتے ایڈیٹرز اور ڈائریکٹر نیوز لاہور میں ملے ہیں۔ کوشش کا آغاز کیا گیا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک کا امتزاج قائم ہو۔

سوشل میڈیا نے تو ہزاروں شتر بے مہار چھوڑ دئیے ہیں۔ یہاں کسی قسم کا ایڈیٹوریل یا اخلاقی کنٹرول نہیں ہے۔ ہم ایسے کھلے میدان میں کھڑے ہیں۔ جہاں والدین، اساتذہ، بزرگ بے توقیر ہو چکے ہیں۔ کسی سرکاری غیر سرکاری ادارے کی کوئی عزت نہیں ہے۔ عدلیہ، فوج، حکومت سب کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ ہم ایک قوم تو تعمیر نہیں کرسکے۔ قبیلوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جمہوری سیاست نے برادری اور قبائلی نظام کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی بھی اتھارٹی نہیں رہی ہے۔ انہیں بھی Electableچاہئیں۔ جن کا کوئی اصول اور وفاداری نہیں ہوتی۔

یقیناً یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ صرف عمران خان، فقط مولانا فضل الرحمن، میاں نواز شریف، مریم نواز اور بلاول زرداری کے لئے نہیں پوری قوم، عدلیہ، نیب، فوج، پارلیمنٹ سب کے لئے۔ اس انتشار کی کیفیت سے کیسے نکلیں، استحکام کیسے حاصل کریں۔ ہمیں ایک اخلاقی نظام تشکیل دینا ہوگا۔ نئی قانون سازی بھی کرنا ہوگی۔ امیدواروں کی اہلیت کے قوانین بھی بدلنا ہوں گے۔ میں جو یونیورسٹیوں کی تحقیق پر زور دیتا ہوں۔ اس سے مقصود ان ذہنوں کو استعمال کرنا ہے جو دنیا پر نظر رکھتے ہیں۔ غیر جانبدارانہ تجزئیے کر سکتے ہیں۔ ایک اصول تو یہ طے کیا جائے کہ نیب یا کسی بھی ادارے کی طرف سے کسی پر الزام عائد ہوتا ہے تو وہ سرکاری اور سیاسی عہدے سے الگ ہو جائے۔ قانونی انداز میں مقدمے کا سامنا کرے۔ اس سے انتشار کے احساس میں کمی ہوگی۔ سرکاری امور نہیں رکیں گے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ نیب نئے پٹارے نہ کھولے۔ پہلے جو مقدمات ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچائے۔ موجودہ قانونی اور سیاسی حالات قوم کے اعصاب کو بری طرح مجروح کررہے ہیں۔ کوئی قیادت بھی ان کو یہ یقین نہیں دلارہی کہ حالات اچھے ہوجائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین