• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں محترم مجیب الرحمٰن شامی کے ساتھ گورنمنٹ کالج ساہیوال جانے کا اتفاق ہوا تو راستے میں اُنہوں نے وزیراعظم آزاد کشمیر کی اسلام آباد میں کی گئی ایک دلگداز تقریر سنائی جو سوشل میڈیا پر بھی بہت وائرل ہوئی تھی۔

اگلے روز شامی صاحب نے اپنی رہائش گاہ پر راجہ صاحب کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا تو درویش کو بھی دعوت دی۔ وہاں شہر کے معروف و معتبر صحافی و دانشور موجود تھے۔

یوں ڈنر کے ساتھ ساتھ سوال و جواب کی محفل خوب جمی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب جیسے مومن کے لبوں پر پہلی مرتبہ مایوسی و قنوطیت ملاحظہ کرتے ہوئے عرض کیا قاسمی صاحب مایوسی کفر ہے اور مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا، خدا پر بھروسہ رکھتا ہے اور خدا کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔

شامی صاحب، الطاف حسن قریشی صاحب، سہیل وڑائچ صاحب، قاسمی صاحب، حفیظ اللہ نیازی صاحب، وجاہت مسعود صاحب، یاسر پیرزادہ صاحب اور سجاد میر صاحب جیسی شخصیات اس الجھی گھتی کو سلجھانے میں کوشاں نظر آرہی تھیں مگر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس ڈوری کا سرا کسی کے ہاتھ آنہیں رہا۔

وزیراعظم آزاد کشمیر سب کو طفل تسلیاں دے رہے تھے کہ کشمیری عوام پر اعتماد کیا جائے، کشمیری کبھی پاکستان سے بے وفائی نہیں کریں گے، وہ کسی تھرڈ آپریشن کے پیچھے نہیں جائیں گے۔

راجہ فاروق حیدر کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا کہ درویش نے ہمیشہ امن و سلامتی اور بھائی چارے کی بات کی ہے مگر اس وقت صورتحال محض باتوں سے کہیں آگے نکل چکی ہے، ہمیں سخت عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

آواز آئی کہ آپ تو ہمیشہ جہاد کے بالمقابل مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ عرض کی بالکل درست بات ہے جتنی مرضی جنگیں لڑ لیں معاملات بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی آتے ہیں لیکن میز پر بہتر فیصلے کروانے کے لئے فیلڈ میں بھی آپ کی پوزیشن بہتر ہونا چاہئے۔ اقوام پر ایسے مواقع آجاتے ہیں جب انہیں اپنے حقوق کے لئے جہاد کی طرف آنا پڑتا ہے۔

درویش پرائیوٹ جہاد کا روز ِاول سے مخالف ہے اور اس فتنے کو حرام سمجھتا ہے۔ اگر آخری چارے کے طور پر قوم جہاد کا تقاضا کرتی ہے تو صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فریضہ ریاست کو سر انجام دینا چاہئے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کا استدلال تھا کہ وادی کے نوجوانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے انہیں وہ مہیا کی جانا چاہئے جبکہ اپنا بیانیہ یہ تھا کہ جو بھی کرنا ہے چوروں کی طرح چھپ کر نہ کیا جائے، واضح اور علانیہ کیا جائے اور سرکاری اہتمام و ذمہ داری میں کیا جائے، ورنہ اسے دنیا بھر میں دہشت گردی گردانا جائے گا۔ بحث امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی طرف چلی گئی۔

تمام احباب دکھی تھے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو وزیراعظم مودی کے جلسے میں نہیں جانا چاہئے تھا اور ہیوسٹن کے اسٹیڈیم میں پچاس ہزار بھارتیوں کے سامنے انہوں نے جو کچھ کہا ہے موجودہ حالات کی حساسیت میں انہیں یہ سب نہیں کہنا چاہئے تھا۔

عرض کی کہ اگر آپ لوگ اس کو اتنا غلط سمجھتے ہیں تو پھر اپنے وزیراعظم سے کہیے کہ وہ ٹرمپ سے ہونے والی اپنی ملاقات فوری طور پر احتجاجاً منسوخ کر دیں، دنیا کو پتا تو چلے کہ ہم ناراض ہیں جبکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ملاقات سے حاصل کچھ نہیں ہونا، عطار کے جس لونڈے کی وجہ سے آپ بیمار پڑے ہیں اُسی سے دوا کیوں لیتے ہیں۔

مودی کے اس جلسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں انڈیا سے اپنی محبت کی پینگیں بڑھائیں وہاں اسلام پر دہشت گردی کے حوالے سے بھی کھلے وار کیے۔

ٹرمپ نے تو جو کہا سو کہا، وزیراعظم مودی نے تو گویا ٹرمپ کو امریکہ کا نہیں انڈیا کا ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مودی جی ٹرمپ کی انتخابی مہم کے نگران بن کر کھڑے ہو گئے ہوں اور اتنے بڑے جلسے میں یہ نعرے لگوا رہے تھے کہ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘۔

مودی نے امریکی عوام کو متاثر کرنے کے لئے کہا کہ آپ کے نائن الیون اور ہمارے ممبئی کے چھبیس الیون کے دوشی ایک ہی ہیں جو آتنک واد کو پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرتے ہیں، اب ہم ٹرمپ کے ساتھ مل کر ٹیررازم کو ختم کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

اُنہوں نے 70سال پرانے قضیے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 370کو ختم کرتے ہوئے جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو وہی حقوق دئیے ہیں جو اس وقت پورے بھارت کے عوام کو حاصل ہیں۔

یوں آرٹیکل 370کو ہم نے فیئرویل دی ہے۔ انڈین وزیراعظم مودی نے جو بلند بانگ دعوے کیے ہیں اور امریکی رائے عامہ کو براہِ راست متاثر کرنے کی جو کوشش کی ہے، انہیں اس کا ٹھوس جواب ضرور ملنا چاہئے۔

اس صورتحال میں پاکستانی وزیراعظم سے بھاری توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جب وہ خطاب کریں گے تو نہ صرف امریکی عوام بلکہ عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں ہموار کریں گے۔

آج کی دنیا میں جنگیں محض اسلحہ بندیوں سے نہیں عقل و خرد اور منطقی دلائل کے بموں اور میزائلوں سے لڑی جا رہی ہیں، جو اس محاذ پر ناکام ہے وہ بارود اور تباہ کن ہتھیاروں سے بھی نہیں جیت سکتا۔

اگرچہ جنرل اسمبلی کی یہ تقریر صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ سچائی تو یہ ہے کہ ہماری اپنی غلط پالیسیوں کے کارن عالمی رائے عامہ ہمارے اس قدر خلاف جا چکی ہے کہ ہمیں اقوامِ متحدہ میں قرارداد لانے کے لئے درکار 15ووٹ بھی حاصل نہیں ہو پائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین