• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سے پہلے کہ میں اپنی بات شروع کروں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب تک پاکستان کے چھوٹے صوبوں اور بڑے صوبے یعنی پنجاب کے درمیان ایسا رشتہ پیدا نہیں کیا جاتا جس سے کسی کو ایسا احساس نہ ہو کہ وہ کسی مجبوری کے تحت اکٹھا رہ رہا ہے اور پاکستان سے اس کی وابستگی ایسی چیز نہیں جو زبردستی ان پر ٹھونسی گئی ہے تو پاکستان پُرسکون نہیں رہ سکتا۔ جب تک ہم اپنے گھر کے حالات درست نہیں کرتے اس وقت تک ہمیں واضح کامیابی نہیں مل سکتی۔

آج یہ بات ’’نعرہ حق‘‘ بن گئی ہے کہ پنجاب کو استحصالی صوبہ کہا جائے اور اس کے خلاف ایک ’’بلاول‘‘ پیدا کیا جائے جو پاکستان کو ’’پنجابستان‘‘ کہہ کر اپنے کسی جذبے کی تسکین کا سامان مہیا کرے۔ سچ ہے پنجاب ظالم نے ظلم کیا ہے اس کی شناخت گم ہو گئی مگر یہ برف کی سل بنا رہا، اس کی ثقافت کو بے چہرگی کا شکار کیا گیا تو اس نے لمبی تان کر سونے میں عافیت جانی، پنجاب ظالم ہے کہ سندھیوں کے پاس سرکاری و غیر سرکاری سطح پر زبان و ثقافت کی ترقی و ترویج کے لئے رسائل و اخبارات ہیں، پختونخوا کے پاس اپنے نصاب میں اپنی شناخت کے لئے اپنی زبان کی سلامتی کے لئے کتب و رسائل اور اخبارات موجود ہیں، بلوچستان کے لوگ اپنی تہذیبی اور لسانی تشکیلات کے لئے ہر سطح پر کام کر رہے ہیں لیکن پنجاب ’’ظالم‘‘ ہے کہ اس نے اپنی زبان کو کھو دیا، تہذیب گم کر دی، ثقافتی بے چہرگی کو قبول کر لیا اور پھر بھی ’’ٹھنڈا ٹھار‘‘ ہے، پنجاب اور پنجابی کا اس سلسلے میں اٹھا ہر قدم اسے غدار ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

پنجاب ’’ظالم‘‘ ہے کہ اس نے کسی بھی غیر منتخب اقتدار کو قبول نہیں کیا۔ پنجاب ’’ظالم‘‘ ہے کہ ون یونٹ کے پورے عرصہ میں اسے اپنی آبادی اور آمدنی کے تناسب سے ترقیاتی رقوم میں کم حصہ ملتا رہا یہاں تک کہ دوسرے علاقوں کی ترقی کے لئے اس کے وسائل استعمال کئے گئے۔ یہی اس غریب اور بے چہرہ پنجاب کا اصل گناہ ہے جسے پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو جیسے لوگ اب انتہا پسندی کی بات کرتے ہیں اور جس کی ایک سزا یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس کے کم از کم تین ٹکڑے سرائیکی، پوٹھواری اور پنجابی کے نام پر کر دئیے جائیں۔

پنجاب پر مسلسل یلغار کے سبب پی پی پی کے بلاول بھٹو تو کیا بہت سے بزعم خود ’’ترقی پسند‘‘ پنجابی، بیرونِ پنجاب سے لگنے والے ہر جھوٹے سچے الزام کا اسی طرح ساتھ دینے لگتے ہیں جس طرح کہا جاتا ہے کہ پنجابی ہر آنے والے حملہ آور کی پذیرائی کے لئے تیار ہوتے اور اس کے ساتھ ہو لیتے، جھوٹ اور سچ نتھارنے کی توفیق خدا نے ان پنجابیوں کو عنایت نہیں کی مگر پھر بھی وہ بڑے فراخ دل، لبرل اور ترقی پسند کہلاتے ہیں۔ ایک وہ پنجابی جو کل تک پنجاب کے ہر بڑے فعل میں برابر کے شریک تھے بلکہ ان بڑے افعال کی ترغیب دینے اور اس پر عملدرآمد کروانے میں پیش پیش تھے، آج یہ پنجابی اس احساسِ جرم میں حصہ دار بننے کے بجائے گناہوں کا سارا پشتارا مرکزی پنجاب کے چند اضلاع کے سر پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں اور اپنے پنجابی ہونے سے بھی انکاری ہیں۔ یہی پنجابی بزعم خود دوسرے صوبوں کے ’’ترقی پسند‘‘ سیاسی گروپوں سے مل کر یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں تین قومیتیں ہیں، پوٹھوہار جس سے فوج آتی ہے اور پشتون علاقے سے آنے والی فوج سے مل کر اٹوٹ اکائی بنتی ہے، سرائیکی علاقہ جہاں سے مرکزی پنجاب کو ہمیشہ جاگیردار قیادت میسر آئی یا تھوپی گئی اور مرکزی پنجاب جہاں سے بیورو کریسی نے جنم لیا۔ اگر پوٹھوار الگ قوم یا قومیت اور پشتون اور ہندکو بولنے والے تو خیر ہیں ہی پنجاب سے باہر تو پھر ان کے ’’گناہوں‘‘ کا بوجھ مرکزی پنجاب پر ڈالنے کا کوئی اخلاقی جواز کس کے پاس ہے؟ اگر سرائیکی قومیت، پنجابی قومیت سے الگ ہے تو خضر حیات ٹوانہ سے لے کر موجودہ عثمان بزدار کی سیاسی قیادت کے ’’جرائم‘‘ مرکزی پنجاب کے کھاتے میں ڈالنے کا اخلاقی جواز کیا ہے؟ اور یہ بات ذہنوں سے بھی محو نہیں ہوئی کہ مرکزی پنجاب کی بے چہرہ اور بے نام اکثریت نے نظام میں تبدیلی کے لئے سبھی نعروں کو مسترد کردیا تھا۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جہاں وسائل نہ ہوں وہاں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ کہ الجھنیں اور دشواریاں اقتصادیات کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ میرے حساب سے پاکستانی عوام کی گردنوں پر سوار جاگیردار پیرانِ تسمہ پا کو اتار پھینکیں، یہ معاملات اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ اصل مسئلہ پنجاب کو اس کی غلامی سے نکالنا ہے اگر کسی قوم سے اس کی زبان چھین لی جائے تو وہ غلام بن جاتی ہے اور غلام کو جو بھی گالی دی جائے وہ الحمد اور شکر خیال کرکے تسلیم کر لیتا ہے، غلام خود کو گالی ہی نہیں دیتا اپنے منہ پر طمانچے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ غلام پنجاب کا پاکستان بننے کے بعد کوئی ترجمان اور پرسان حال پیدا نہیں ہوا جس کی وجہ سے بلاول جیسے بے سُرے لوگوں نے راگ الاپنے شروع کر دئیے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سیاسی مشاعرے میں پنجاب پیپلز پارٹی کے وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جن کو پنجابی میں ماہ و سال کے نام بھی نہیں آتے۔ ایسی صورتحال میں پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ اور پنجاب و پنجابی کی الجھی ہوئی بے چہرہ شناخت کو نمایاں کرنے کی جائز خواہشوں اور کوششوں کا پی پی پی اور ایم کیو ایم (سبھی گروپ) کا منفی ردعمل کیا کچھ ظاہر نہیں کرتا۔ کل تک پنجابی کو اردو کی ماں ماننے والے اس کے تین ٹکڑے کرکے اسے بے گور و کفن چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ کیا پنجاب کو اس کے برے بھلے کارناموں کی جس میں پنجابی شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں کی طرف سے اردو کے لئے بے بہا خدمات بھی شامل ہیں، یہ سزا ملنی چاہئے؟

سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب بھی اتنی ہی اہمیت اور سنجیدگی و باریکی سے تلاش کرنا پڑے گا۔ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔

تازہ ترین