• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال:۔ کیا فیس بک ودیگر سوشل میڈیا کا استعمال جائز ہے،نیز ٹیلی ویژن کی مرمت کی آمدنی اور سوشل میڈیا اور یوٹیوب سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز ہے؟ (محمدرمیز، راول پنڈی )

جواب:۔ ٹیلی وژن ،فیس بک اور سوشل میڈیا وغیرہ دودھاری تلوار ہیں، اس کا مثبت اور منفی دونوں طرح کا استعمال ہوسکتا ہے، مقاصد خیر کے لیے ان چیزوں کا استعمال جائز اور مباح ہے، واجب اور لازم نہیں ہے۔

مباح امور کے لیے ان اشیاء کا استعمال مباح ہے اور حرام امور کے لیے حرام ہے، لیکن اگر قرائن وشواہد کی روشنی میں حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا شر خیر پر غالب آرہا ہے تو وہ اس کے استعمال پر پابندی لگاسکتی ہے یاوہ ایسی مہارت حاصل کرے کہ ان پر چیک رکھا جائے اورنقصان دہ چیزوں کو فلٹر کرنے کا کوئی انتظام ہو۔ 

ابتدائے اسلام میں حرمت خمر کا قطعی حکم آنے سے پہلے اسلام نے اسی اصول کی بنیاد پرشراب اور جوئے کو روکا تھا،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’(یہ)آپ سے خمر اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فوائد بھی ہیں،اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے،(سورۃ البقرہ) چنانچہ قرآنِ کریم نے گناہ کے غلبے کو قلیل نفع پر ترجیح دیتے ہوئے اس سے منع فرمایا،بعد میں شراب کی حرمت کا واضح حکم قرآنِ کریم میں نازل ہوااوراس کی حرمت کو کئی تاکیدات کے ساتھ مؤکد فرمایا۔ 

تاہم سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر محرمات کو دیکھنے سے ہر صورت میں اجتناب لازم ہے،غرض ان کا خیر ،خیر ہے اور شر،شر ہے۔ مفتی وقار الدین قادری لکھتے ہیں: ’’ریڈیو اور ٹیلی ویژن مشینی آلات ہیں، ان سے جائز کام بھی لیے جاتے ہیں اور ناجائز کام بھی، یہ صرف حرام کاموں کے لیے استعمال نہیں ہوتے اور نہ محض غلط کاموں کے لیے بنائے جاتے ہیں، جس طرح چھری ، بندوق اور دیگر مہلک آلات سے جہاد بھی کیا جاتا ہے اوریہ اپنے ذاتی کاموں اور شکار میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور انہی سے انسان کو قتل کرنے والا قبیح فعل بھی کیا جاتا ہے۔ 

لہٰذا جو آلات صرف معصیت کے لیے متعین نہ ہوں، ان کا بنانا اور مرمت کرنا جائز ہے ،تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مرمت کرنا بھی جائز ہے، اسی طرح اس کی مرمت کی اجرت بھی حلال ہے‘‘۔آج کل سوشل میڈیا پر لوگ اپنے مخالفین کی تذلیل اور تضحیک کرتے ہیں،یہ کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے ۔

ترجمہ:’’اس کے لیے افسوس ہے جو قوم کو ہنسانے کے لیے جھوٹی باتیں گھڑ کر بیان کرتا ہے ،اس کے لیے افسوس ہے،اس کے لیے تباہی ہے۔( ترمذی)

اسی طرح جھوٹ پر مبنی باتیں پھیلانا بھی ناجائز ہے، جنہیں عرفِ عام میں ’’افواہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (تحقیق کے بغیر)آگے پھیلاتا پھرے،(صحیح مسلم)سوشل میڈیا کے غلط استعمال میں وقت کا ضیاع ،لوگوں کی اذیت رسانی ،غیر مستند اقوال کو حدیث بناکر پیش کرنا وغیرہ یہ سب امورشریعت کی روسے ممنوع ہیں ، البتہ اُسے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے لیے استعمال کرنا مستحسن ہے ۔

تازہ ترین