• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے لئے یہ بہت آسان ہے کہ میں فیض صاحب سے اپنی دوستی بلکہ بے تکلفی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ایسے ایسے واقعات بیان کروں کہ آپ سب دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ جائیں۔ یہ سب کچھ میرے لئے اس لئے ممکن ہی نہیں بلکہ بہت آسان بھی ہے کہ فیض صاحب ماڈل ٹاؤن میں میرے گھر سے دو فرلانگ کے فاصلے پر رہتے تھے اور اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ خود فیض صاحب کا گھر حفیظ جالندھری صاحب کے گھر سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا مگر ان دونوں ہم عصروں کے نظریاتی فاصلے میلوں دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ بہرحال میں تاریخ پر رحم کھاتے ہوئے فیض صاحب سے دوستی کا دعویٰ نہیں کروں گا کہ بقول شعیب بن عزیز
دوستی کا دعویٰ کیا ،عاشقی سے کیا مطلب
ہم تیرے فقیروں میں ہم تیرے غلاموں میں!
جہاں تک فیض صاحب کی شاعری اور ان کے نظریات کا تعلق ہے تو یہ دونوں ان کی شخصیت ہی کی طرح من موہنے تھے۔ فیض صاحب پاکستانی عوام کے علاوہ دنیا بھر کے پسے ہوئے لوگوں کے لئے دل میں محبت کے گہرے جذبات رکھتے تھے ہم میں سے کچھ بظاہر نظریاتی لوگ اپنی زبان سے تو وہ باتیں کہتے ہیں جو ہمارے نظریات سے ہم آہنگ نظر آتی ہوں لیکن یہ باتیں ہمارے دل سے نہیں نکلتیں ،صرف زبان سے ادا ہوتی ہیں۔ حبیب جالب نے اسی قلم کے بہروپیوں کے لئے کہا تھا
دنیا کے جن کو درد ہے معدودے چند ہیں
باقی تمام اپنی ترقی پسند ہیں
مگر فیض صاحب جب پسے ہوئے طبقوں کا ذکرکرتے ہیں تو ان کا ایک ایک لفظ ان کی دلی دردمندی کی گواہی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دل سے نکلی ہوئی بات براہ راست دل پر ہی اثر کرتی ہے۔ فیض صاحب کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا، مگر ان کی شاعری کچی بستیوں کے مکینوں کے درمیان سے ہویدا ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں توپ و تفنگ کی گھن گرج اور گولہ بارود کے دھوئیں کی بجائے دلوں میں اتر جانے والی نغمگی ہے جو سننے اور پڑھنے والوں کوپرے نہیں دھکیلتی بلکہ اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ فیض صاحب کی انقلابی شاعری میں سائلنسر لگا ہوا ہے، کسی شاعری میں ا گر یہ سائلنسر نہ ہو تو وہ شاعری نہیں رہتی، پراپیگنڈہ بن جاتی ہے۔ شاعری جذبات کی تہذیب، ترتیب اور تطہیر کا نام ہے اور فیض صاحب نے اپنی شاعری سے یہی کام لیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جئے تو انہوں نے دنیا کے سامنے سوشلزم کا سوفٹ امیج پیش کیا۔ ان کے بعض دوستوں کی خواہش تھی کہ فیض صاحب ظالم طبقات کو پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح للکاریں اور ”اوئے جاگیردارا“ ٹائپ کی شاعری کریں، چنانچہ وہ اپنے مضامین میں اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے ان کا جو خاکہ کھینچتے تھے اس میں فیض صاحب ہاتھ میں گنڈاسا پکڑے لاچے میں ملبوس ، مونچھوں پر تاؤ دیتے دکھائی دیتے! آپ خود ہی سوچیں اگر فیض صاحب اپنی شاعری میں واقعی ایسے نظر آتے تو کیا ان کا وہی مقام ہوتا جو آج ان کا ہے؟
جہاں تک فیض صاحب کی شخصیت کا تعلق ہے ان دنوں ایک بھی ا یسی خوبصورت شخصیت ہمارے درمیان موجود نہیں۔ان کا دل نفرت، بغض اور کینے سے پاک تھا، مجھے جتنی بار بھی ان کی صحبت میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا میں نے کبھی ا ن کی زبان سے کسی کے بارے میں بھی کوئی منفی بات نہیں سنی، چنانچہ جو لوگ ان کے قریب رہتے تھے وہ تمام وقت غیبت کے لئے ترسے رہتے تھے کیونکہ فیض صاحب ان کا”مصرعہ“اٹھاتے ہی نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے لاہور کے نیشنل سینٹر میں بلکہ کہنا چاہئے کہ کشور ناہید کے نیشنل سینٹر میں کیونکہ ان کے جانے کے بعد یہ سینٹر ویران ہوگیا تھا۔ ایک تقریب کے سلسلے میں فیض صاحب تشریف لائے مجھے صحیح طرح یاد نہیں تقریب سے پہلے یا بعد میں ظہور نظر ہم چند لوگوں کے درمیان اپنی بذلہ سنجی کی محفل جمائے ہوئے تھے۔ ظہور نظر اعلیٰ درجے کے شاعرہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کے نقال بھی تھے۔ انہوں نے مختلف شاعروں کی نقلیں اتارنا شروع کیں۔ ہم سب اس بہترین نقالی پر قہقہوں کی صورت میں داد دے رہے تھے جبکہ فیض صاحب کے چہرے پر وہ خوبصورت مسکراہٹ تھی جو کبھی کسی نے قہقہہ بنتے نہیں دیکھی، مختلف شاعروں کی بے ضرر نقالی کے بعد ظہور نظر ،حفیظ جالندھری کی نقل اتارنے لگے تو فیض صاحب کے چہرے کی مسکراہٹ بھی غائب ہوگئی اور یوں لگا جیسے وہ اس محفل سے بالکل لاتعلق ہوگئے ہیں۔ ظہور نظر نے یہ دیکھا تو موضوع بدل دیا، دراصل ان دنوں حفیظ صاحب ”سیارہ ڈائجسٹ“ میں فیض صاحب کے حوالے سے غیر مستند الزامات عائد کررہے تھے اور فیض صاحب کی طرف سے اس کے جواب میں حسب عادت کسی منفی رویے کا اظہار نہیں ہورہا تھا، چنانچہ ظہور نظر جب تک فیض صاحب کے دوستوں کے حوالے سے اپنی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے رہے، فیض صاحب اس سے لطف اندوز ہوتے رہے لیکن جب حفیظ صاحب کی باری آئی تو وہ لاتعلق ہوگئے۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو نہ صرف یہ کہ خوش ہوتا بلکہ اتنی ہلا شیری دیتا کہ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جاتا!
فیض صاحب کی عظمت کا ایک پہلو میں نے اس روز بھی دیکھا جب شبنم شکیل کے گھر ایک دعوت میں فیض صاحب کی نشست پر گیا اور کہا کہ میں اپنے (سابقہ) اخبار کے لئے ان کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔واضح رہے میرا یہ اخبار فیض صاحب کے نظریات کا سخت ناقد تھا مگر فیض صاحب نے کوئی کڑوی کسیلی بات کرنے کی بجائے جواب میں کہا”ابھی بات کرتے ہیں بھئی، ابھی بات کرتے ہیں“میں تھوڑی دیر بعد پھر ان کے پاس گیا اور اپنی درخواست دہرائی ،انہوں نے پھر وہی جواب دیا”ابھی بات کرتے ہیں بھئی ابھی بات کرتے ہیں“ تیسری دفعہ انہوں نے مجھے یہ پوچھ کر حیران کردیا کہ”آپ انٹرویو لینے میرے گھر آئیں گے یا میں اخبار کے دفتر چلا آؤں؟“ میں نے کہا”جی ہم خود حاضر ہوں گے“ چنانچہ مقررہ تاریخ پر میں اس پورے پینل سمیت ان کے گھر ماڈل ٹاؤن جاپہنچا جس میں میرے علاوہ اشفاق احمد، عارف نظامی ، ڈاکٹر سلیم اختر اور شبنم شکیل شامل تھے۔ یہ ا نٹرویو اخبارکے پورے صفحہ پر شائع ہوا جس کی ہیڈ لائن تھی،”کشمیر کے بغیر پاکستان کا نقشہ مکمل نہیں ہوسکتا“۔ یہ ا نٹرویو ایک بار پھر ان دوستوں کو ناگوار گزارا جو سمجھتے تھے کہ اپنی قوم سے کومٹنمٹ شاعر کی بین لاقوامیت کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے مگر فیض صاحب جانتے تھے کہ ہر بین الاقوامی شاعر کا اپنا وطن بھی ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے شدید تکلیفیں اٹھانے کے باوجود اپنے پاکستانی ہونے پر کبھی معذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں کیا تھا چنانچہ جب انڈیا میں بھی ان کی پذیرائی ہوتی تو وہ یہی کہتے ”یہ میرے ملک کی پذیرائی ہے“۔
جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ فیض صاحب دلچسپ سے دلچسپ صورتحال میں بھی اپنی مسکراہٹ کو قہقہہ نہیں بننے دیتے تھے تو مجھے اس کی ایک مثال یاد آگئی۔ لاہور میں اختر ممونکا کے سفرنامے ”پیرس،17کلو میٹر“ کی تقریب رونمائی تھی جس کی صدارت فیض صاحب کررہے تھے میں اس تقریب میں ایک مضمون نگار کے طور پر شامل تھا۔ میں نے اختر ممونکا کی کتاب میں سے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بقول ان کے وہ ایک بندرگاہ پر برلب سڑک اپنا سلیپنگ بیگ کھول کر سورہے، ادھر سے شرابی ملاح نشے میں دھت گزرتے اور سلیپنگ بیگ میں ان کا چھپا ہوا چہرہ بیگ کو سرکا کر دیکھتے اور کسی خاتون کی بجائے اس ہٹے کٹے نوجوان کو وہاں پاکر سخت مایوس ہوتے اور پھر گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اختر ممونکا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان ملاحوں کے ہاتھوں ان کی عزت محفوظ رہی جبکہ شواہد سے ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی…اس پر ہال میں ایک زور دار قہقہہ گونجا، میں نے فیض صاحب کی طرف دیکھا تو ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا!
پھر وہ دن بھی آیا جب میں ان کے جنازے میں شریک تھا، انہیں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، میں انہیں لحد میں اترتا دیکھ رہا تھا۔ اپنے اخبار کے لئے اس کی رپورٹنگ بھی میں نے ہی کی تھی۔ میں ہر تہوار پر ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں جاتا ہوں، جہاں میرے والد اور والدہ کے علاوہ اشفاق احمد اور فیض احمد فیض بھی دفن ہیں میں ہر دفعہ ان کے سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر ان کے لئے فاتحہ خوانی کرتا ہوں مگر ہر بار بلھے شاہ کی آوازمیرے کانوں میں گونجتی ہے۔
بلھے شاہ ،اسی مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
(اکیڈمی آف لیٹرز اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقدہ فیض سیمینار میں پڑھاگیا)
تازہ ترین