• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت سابق کراچی پولیس چیف اور موجودہ ایڈیشنل آئی جی سیکورٹی ڈاکٹر امیر شیخ کی رہائش گاہ پر موجود تھا۔

ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے سرکاری رہائش گاہ کو مستقل بنانے سے گریز کررکھا ہے، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور یہ خوبی صرف ان افسران میں نظر آتی ہے جو اصول اور ضابطے کی پابندی کرتے ہوں اور دنیاوی فوائد سے زیادہ فرض شناسی کو اہمیت دیتے ہوں تاہم صاف ستھرا ڈرائنگ روم اور سلیقے سے رکھی ہوئی اشیاء ان کے ذوق کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد سرمئی رنگ کے شلوار قمیص میں ملبوس وہ کمرے میں داخل ہوئے اور علیک سلیک کے بعد صوفے پر براجمان ہوگئے میں چونکہ طویل عرصے سے جاپان میں رہائش پذیر ہوں لہٰذا ان سے کراچی پولیس کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنے سے قبل انھیں جاپانی پولیس کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرنے سے ابتدا کی کہ ٹوکیو کی آبادی سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے جن کی حفاظت اور قانون کی عملداری کیلئے 43500پولیس اہلکارتعینات ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر 287افراد پر ایک پولیس اہلکار متعین ہے، جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں پولیس کے باقاعدہ محکمے کا آغاز 1874میں ہوا، ٹوکیو پولیس چیف کو سپرنٹنڈنٹ جنرل کہا جاتا ہے جسے نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن مقرر کرتا ہے جس کی حتمی منظوری وزیراعظم کی جانب سے دی جاتی ہے جبکہ ٹوکیو میں قانون کی عملداری کے لئے 102پولیس اسٹیشن موجود ہیں۔

ٹوکیو پولیس کے پاس شہر بھر میں پیٹرولنگ کے لئے تقریباً 1300جدید کاریں اور 960موٹر سائیکلیں بھی موجود ہیں کیونکہ ٹوکیو ایک ساحلی شہر ہے جہاں نہ صرف سمندر بلکہ دریا بھی ہیں لہٰذا بحری پولیسنگ کیلئے ٹوکیو پولیس کے پاس جدید ترین بائیس اسپیڈ بوٹس ہیں اور فضائی نگرانی کیلئے چودہ جدید ہیلی کاپٹر بھی دستیاب ہیں اسی سبب ٹوکیو پولیس کا شمار دنیا کی بہترین پولیس میں ہوتا ہے۔

میں نے ڈاکٹر امیر شیخ سے سوال کیا کہ کراچی پولیس میں ایسی کیا کمزوریاں ہیں کہ کراچی کی پولیس سے جرائم کنٹرول نہیں ہو پا رہے؟ وہ جو خود برطانیہ کی معروف یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس پالیسی میں ماسٹرز جبکہ ٹیررازم اور پولیٹکل وائیلنس میںڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل بھی ہیں ، بتایا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں کراچی کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس تناسب سے پولیس کی نفری میں اضافہ نہیں ہو سکا ہے جبکہ کراچی شہر میں پولیس کو صرف جرائم کو کنٹرول نہیں کرنا بلکہ کراچی پاکستان کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں پولیس کو دہشت گردی کابھی سامنا ہے اور ہمارے بہت سے اہم افسران اور فورس کے ارکان دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کے ان واقعات میں غیر ملکی قوتوں کا عمل دخل بھی ہے لہٰذا ہماری پولیس فورس کو انتہائی جدید انداز میں منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے جس پر تیزی سے کام ہو بھی رہا ہے جبکہ مالی مشکلات کے سبب بہت سی تجاویز پر عمل نہیں ہو پا رہا، وہ بتارہے تھے کہ کراچی کی آبادی ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زائد ہو چکی ہے اس حساب سے ہمارے پاس جو نفری ہے وہ پچیس ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں سے بہت ساری نفری حساس اداروں اور اہم شخصیات کی سیکورٹی پر بھی تعینات رہتی ہے جبکہ پولیسنگ کے لئے ہمارے پاس پندرہ ہزار کے لگ بھگ نفری ہوتی ہے جسے بارہ بارہ گھنٹے کی شفٹوں میں تھانوں میں تعینات کیا جاتا ہے، افرادی قوت میں کمی کے باوجود ہماری پولیس بہترین نتائج فراہم کررہی ہے۔

ڈاکٹر امیر شیخ نے بتایا کہ کراچی ڈویژن میں ایک سو سولہ پولیس اسٹیشن ہیں جبکہ پولیس کو کنٹرول کرنے کے لئے ہم نے بہترین انفراسٹرکچر ڈیزائن کیا ہے جس میں کراچی پولیس چیف کا عہدہ ایڈیشنل آئی جی کے رینک کے افسر کے پاس ہوتا ہے جبکہ ان کے نیچے ساتھ ڈی آئی جی رینک کے افسران ہوتے ہیں جن میں ڈی آئی جی ایڈمنسٹریشن، ڈی آئی جی ایسٹ، ڈی آئی جی ویسٹ، ڈی آئی جی سائوتھ، ڈی آئی جی سی آئی اے، ڈی آئی جی ٹریفک، ڈی آئی جی لائسنس برانچ شامل ہیں، میرے ایک سوال پر کہ لاہور میں جس طرح جرائم کے خلاف فوری کارروائی کے لئے شہباز شریف نے ڈولفن فورس تشکیل دی تھی اس سے عام شہریوں کے ساتھ راہ چلتے جرائم کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے ایسی فورس کراچی میں کیوں موجود نہیں ہے، اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہم نے کافی پہلے کراچی کے لئے ڈولفن فورس ٹائپ کا منصوبہ بناکر اپروول کے لئےبھیجا ہوا ہے تاہم مالی مسائل کے سبب یہ منصوبہ ہم تاحال شروع نہیں کرسکے تاہم کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں اس طرح کے منصوبے کی اشد ضرور ت ہے۔

پولیس میں اثر ورسوخ اور سیاسی بھرتیوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا صرف پولیس کے شعبے میں ہی نہیں ہے لیکن سیاسی بھرتیوں سے بھی پولیسنگ کے معیار میں فرق پڑا ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ پولیس میں سیاسی بھرتیوں اور سیاسی اثر ورسوخ کو ختم کیا جاسکے تاکہ ہماری پولیس بھی عالمی معیار کے حوالے سے دنیا کی بہترین پولیس کہلا سکے۔

تازہ ترین