• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روبینہ خان۔۔۔۔ مانچسٹر
انسان ہمیشہ سے سچائی اور لازوال سچائی کے اصولوںکو پسند کرتا آیا ہے ۔ لیکن بہت سے لوگ عملی طور پر مصلحت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اس کا جواز بھی ان کے پاس موجود ہوتا ہے ۔ مثلاً لوگ ناراض نہ ہوجائیں۔ دوسروں کے دل میں ان کے لئے نفرت کے جذبات نہ پیدا ہوجائیں! اسی لئے زیادہ تر لوگ ہاں میں ہاں ملانے اور تعریفی کلمات کہنے کو آسان سمجھتے ہیں ۔ کوئی بھی کسی کو دشمن بنانا نہیں پسند کرتا اور یہ اچھی بات ہے ۔ لیکن یہی لوگ جو ہمیشہ تعریف کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں ،ان کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو اس وقت سچائی کے علمبردار بن جاتے ہیں۔ مصلحت پسندی صرف اسی وقت تک ہے جب تک ان کی ذات محفوظ ہے اور لوگ ان سے چاپلوسی کر رہے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جب کوئی آپ کو پسند کرتا ہےتو وہ آپ کی برائیاں بھی بھول جاتا ہے اور جب ناپسند کرنے لگتا ہے تو اچھائیاں بھول جاتا ہے۔پچھلے دنوں ایک مذہبی خاتون سکالرسے سچ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا بے شک سب کو سچ بولنا چاہئے۔ سیاستدان اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ صحافی اور دوسرے لوگ جن کو معاشرہ اہمیت دیتا ہے ان کو سچ کی بنیادوں پر بات کرنی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کے ہاتھوں میں قلم ہوتا ہے ان کو کھری اور سچی بات کرنی چاہئے۔ تاکہ پڑھنے والے اور معاشرے میں ہونے والے اقدار اچھی ہوں یا بری، ان کے بارے میں آگاہی ملتی رہے ۔یہ میڈیا کا دور ہے ۔اب تو وقت کے ساتھ ٹی وی ڈراموں میں ایسے موضوعات پر بات ہو رہی ہے، جن پر پہلے بات نہیں ہوتی تھی اب ان کو دکھایا اور بتایا جارہا ہے۔سعادت حسن منٹو پر فحش نگاری کا الزام تھا لیکن انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ اگر ان کی کہانیاں گندی ہیں تو معاشرہ گندا ہے۔ معاشرے کی بات ہو یا ملکوں کی سطح پر سچائی کا ساتھ دینا ہو، ہر جگہ ایک ہی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ تہذیب اور اعلی اقدار رکھنے والے بھی اپنے مفادات رکھتے ہیں اسلحہ کی فروخت کے لئے لوگوں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں مداخلت کرتے ہیں۔ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ عراق میں ہونے والی تباہی کو کون بھول سکتا ہے۔اصولوں کے نام لیوا دوسروں کے لئے پتھر دل ہوتے ہیں۔ 2018 میں دل دہلا دینے والا واقعہ جمال خوشقجی سعودی صحافی کا قتل ہے۔جس کو حکومت وقت کے خلاف بولنے کی جو سزا ملی اس کی مثال نہیں ملتی۔حال ہی میں سعودی ولی عہد کی جانب سے ذمہ داری قبول کی گئی ہے کہ ان کے دور اقتدار میں قتل ہوا اور اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ لیکن حکومت کا اس قتل میں سے کوئی تعلق نہیں۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈین پرائم منسٹر سے کیوں اپنی دوستی خراب کریں گے۔ ان کو لاکھوں امریکن انڈین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں اور تجارت انڈیا کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ سیدھی اور سچی بات کرتے ہوئے کیوں مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے کے لیے کہیں گے اور کشمیریوں پر ظلم کرنے سے سے منع کرنے کے لیے صاف الفاظ کا استعمال کریں گے ۔پوری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑا لیڈر معلم اور رہنما مانتی ہے ۔اسلام کے زرین دور حکومت کی مثال بنا کر حکومتیں صحیح فیصلے کر سکتی ہیں لیکن چھوٹے اور بڑے مفادات کی خاطر عملی طور پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ یونائیٹڈ نیشن اقوام عالم کی تنظیم اگر اپنی تنظیم کے اصولوں کے خلاف کام کرنے والوں کو سزا نہیں دے سکتی یا فیصلہ نہیں کرسکتی تو اس کو بنانے کا مقصد کیا ہے ۔صرف تقریریں مسائل کا حل نہیں کر سکتیں۔ سچائی کی بات کریں تو سب سے پہلے ماننا ہوگا کہ دو میں سے ایک سچا ہوتا ہے۔ حتمی سچائی ہوتی ہے۔ فلاسفرز کی ایک کھیپ ایسی بھی ہے جو سمجھتی ہے کہ ہر شخص وہ کرسکتا ہے جو وہ اپنے لئے صحیح سمجھتا ہے، یعنی اصول کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایسے فلاسفرز بھی ہیں جو سچائی کے اصولوں کو اضافی سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے صفحات کے صفحات کالے کر دیئے اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ سب کچھ بے معنی ہے۔ تو ان کے استدلال کے جواب میں ان کی اپنی تحریریں بھی بے معنی ہو جاتی ہیں۔ خاص لوگ خاص تو ہوتے ہیں لیکن تعداد میں بھی کم ہوتے ہیں سچائی کے بارے میں گئے دنوں کا واقعہ یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بچہ جو حصول علم کے لئے قافلے کے ساتھ بغداد جا رہا تھا کہ قافلے پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا اور سب کچھ لوٹ لیا ۔ڈاکوؤں نے اس نوجوان بچے سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے سکون سے بتایا کہ اس کے پاس صدری میں چالیس دینار سلے ہوئے ہیں۔ ڈاکوؤں نے سنا اور آگے بڑھ گئے کہ یہ سچ نہیں۔ یہ تفنن طبع کے لئے کہہ رہا ہے۔ دو تین ڈاکوؤں کے سوال پر اس نے یہی جواب دیا کسی نے بھی اس کی بات کو سچ نہیں مانا اور اس کی تلاشی کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔کچھ دیر کے بعد ڈاکو سردار کے پاس یہ بات پہنچی تو اس نے کہا کہ ہم نے قافلے میں اس قدر دہشت پھیلارکھی ہے۔ اس وقت کوئی مذاق نہیں کر سکتا۔ نوجوان کو بلایا گیا اور اس سے سوال دوبارہ کیا گیا۔ اس نے جواب دیا کہ اسکے پاس چالیس دینار ہیں۔ تلاشی پر اس کے پاس سے پورے 40 دینار نکل آئے۔ اب سردار نے پوچھا کہ اس نے سچ کیوں بولا۔اس جوان نے بتایا کہ سفر پر چلتے ہوئے وقت اس کی ماں نے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولنا بس اس نے اپنی ماں کا حکم ماننا ہے ۔اس سادہ سے جملے نے ڈاکو سردار کی دنیا بدل دی اور وہ رونے لگ گیا۔ کہنے لگا کے یہ بچہ اپنی ماں کا تابعدار ہے اور میں خالق کائنات کا کس قدر انکاری ہوں۔ اس نے بھی گناہ سے توبہ کرلی ۔قافلے والوں کا لوٹا ہوا سامان واپس کردیا۔اس نوجوان بچے کا نام شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ یہ واقعہ سچ بولنے کا درس دیتا ہے اور سکھاتا ہے کیسے بظاہر نقصان میں کتنے فائدے چھپے ہوتے ہیں اور کس طرح سے دنیا میں اچھائی پھیلتی ہے۔انسانی نفسیات بڑی عجب ہے اللہ نے انسان کو نیکی کے راستے میں چلنے پر سکون دیا ہے اور جھوٹ اور برائی کے راستے پر چلنے میں بےسکونی۔ ہم جب کسی مثبت چیز کے بارے میں پڑھتے ہیں یا کوئی اچھا ارادہ کرتے ہیں تو ہمیں بہت اچھا محسوس ہو رہا ہوتا ہے اسی طرح اچھے لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر پوزیٹو انرجی پیدا ہوتی ہے اور انسان نیک ارادے باندھتا ہے ۔مجھے اپنے سکول کے زمانے کی ایک ٹیچر بہت یاد آتی ہیں، جو ہمیں انگلش پڑھاتی تھی ۔ انگلش میں ایک کتاب قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے بارے میں تھی ۔کتاب میں شامل کچھ واقعات پڑھتے ہوئے شدت جذبات سے بول نہیں پاتی تھیں ۔عظیم رہنما کی باتیں پڑھتے ہوئے ان کاچہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھوں میں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ سچے اور محنتی لوگ اسی طرح دنیا بدل دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان اورجانور میں اہم فرق یہ ہے جانور وہ جو اپنے لئے سوچے اور انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے سوچے۔
تازہ ترین