• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریٹائرڈ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم پاکستان میں ایک بڑا نام ہے۔ لوگ انہیں پیار سے فخرو بھائی بھی کہتے ہیں۔ ان کا اعلیٰ عدالت کے جج کی حیثیت سے سارا کیریئر بے داغ رہا ہے۔ دراصل وہ سونا ہیں، سونا بھی ایسا جس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ وہ شوشا بھی نہ کرتے اور پروپیگنڈہ بھی نہیں کرتے۔ جب اعلیٰ عدلیہ کے جج تھے اور جب سی ایم ایل اے جنرل ضیاء نے اعلان کیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج آئین کے تحت لئے گئے حلف سے دستبردار ہو کے ان کی طرف سے نافذ کئے گئے پی سی او کے تحت نئے سرے سے حلف اٹھائیں گے تو جسٹس فخر الدین جی ابراہیم پاکستان کے ان چند قابل احترام ججوں میں شامل تھے جنہوں نے بلا کسی تامل کے جج کی سیٹ چھوڑ دی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ بعد میں ایک مرحلے پر فخرو بھائی محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے وزارت عظمیٰ کے دور میں سندھ کے گورنر بنے مگر کچھ اسباب کی بنا پر جن کی انہوں نے کبھی بھی تشہیر نہیں کی سندھ کے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، بعد میں بینظیر بھٹو کے وزارت عظمیٰ کے دور میں ہی ایک مرحلے پر پاکستان کے اٹارنی جنرل بنے مگر ایک مرحلے پر جب ایک ایسے ایشو پہ جو اٹارنی جنرل کے دائرہ کار میں آتا تھا، حکومت نے شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل کیں تو جسٹس فخر الدین پھر خاموشی سے اٹارنی جنرل کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ بعد میں بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد ملک معراج خالد کی سربراہی میں بننے والی نگراں حکومت میں اس وقت کے صدر فاروق لغاری کی درخواست پر اس بنا پر نگراں حکومت میں وفاقی وزیر بنے کہ وہ ایسے قوانین بنائیں گے جن کے نتیجے میں نگراں حکومت آئندہ کیلئے آزاد، شفاف انتخابات کرانے پر مجبور ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی ہدایات کے تحت ایسے قوانین بنائے گئے اور نہ فقط نگراں کابینہ نے ان کی منظوری دی بلکہ صدر فاروق لغاری نے بھی ان پر اعتراض نہیں کیا مگر جب ان قوانین پہ عملدرآمد کا مرحلہ آیا تو صدر فاروق لغاری کی ہدایات کے تحت ان قوانین میں سے کچھ پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ پہ عملدرآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فخرو بھائی کو یہ بات منظور نہیں تھی لہٰذا وہ ایک بار پھر خاموشی سے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ مگر اب فخرو بھائی پھر ایک آزمائش میں ہیں شاید یہ ان کی زندگی کی سب سے کڑی آزمائش ثابت ہو، واضح رہے کہ آئین میں کی گئی بیسویں ترمیم کے تحت عام انتخابات کرانے کیلئے ایک ایسا چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنا تھا جس پر وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن متفق ہوں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ کار قابل عمل ہے؟ واضح رہے کہ 18 ویں ترمیم اور 19ویں ترمیم میں اتفاق رائے سے یہ ایشو طے کر دیا گیا تھا مگر بعد میں 20ویں ترمیم لانے کے مرحلے پر یہ ایک ایسا تنازع بننے لگا جو حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ اندرون خانہ ذرائع کے مطابق پی پی کے میاں رضا ربانی اور نواز لیگ کے اسحاق ڈار پر مشتمل پارلیمنٹیرینز کی ایک ایسی خوش قسمت جوڑی پاکستان کو نصیب ہوئی تھی جس کے سربراہی پر 18 ویں آئینی ترمیم کی اتفاق رائے سے منظوری کا سہرا سجتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی نواز لیگ کی پارلیمنٹری پارٹی میں ایک آدھ ایسے Hawks تھے جن کو اسحاق ڈار کے Conduct پر اعتراضات تھے۔آخر کار نواز لیگ کے Hawks کی طرف سے ڈکٹیٹ کئے گئے فارمولے کے تحت بیسویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ تیار کرنے کے بعد اس کی منظوری دی گئی۔ اس ترمیم کے تحت نگراں وزیراعظم ، نگراں سیٹ اپ اور چیف الیکشن کمشنر حکمران پارٹی اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کی مشاورت سے طے کرنا تھا مگرکچھ جہاندیدہ پارلیمنٹیرین بیسویں ترمیم کی اس ساخت میں کئی خطرات دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں بیسویں ترمیم میں طے کئے گئے فارمولے کے تحت نگراں وزیراعظم نگراں سیٹ اپ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے سلسلے میں لیڈر آف اپوزیشن کو ”ویٹو پاور“ دی گئی ہے اور ان مبصرین کے مطابق جمہوریت کو ویٹو پاور کبھی بھی راس نہیں آتا۔ یہ بات معجزے سے کم نہیں ہے کہ حکمران پارٹی اور اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کے نام پہ اتفاق کر لیا۔ باخبر سیاسی مبصرین کے مطابق فخر الدین جی ابراہیم کا نام تجویز کرنے والی نواز لیگ تھی، اسی طرح پی پی نے بھی فخر الدین جی ابراہیم کے نام سے اتفاق کر لیا مگر اب ان ذرائع کی طرف سے اشارے مل رہے ہیں کہ نواز لیگ اور پی پی دونوں کو احساس ہوا کہ کیونکہ فخر الدین کا تعلق ایک آگ بگولہ بنے ہوئے شہد سے ہے لہٰذا وہ شاید کسی مرحلے پر آزادانہ طور پر اپنے فرائض ادا کرنے میں مشکلات محسوس کرنے لگیں۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا بوہری کمیونٹی سے تعلق ہے۔ یہ کمیونٹی بیوپار کرتی ہے اور پاکستان کی انتہائی پُرامن ترین کمیونٹیز میں شمار ہوتی ہے۔ یہ کمیونٹی زیادہ تر سندھ میں کراچی اور حیدرآباد کے مخصوص علاقوں میں آباد ہے اور انہی علاقوں میں ان کے مکان اور بزنس وغیرہ بھی ہیں مگر غیر متوقع طور پر فخرالدین جی ابراہیم کے چیف الیکشن کمشنر کا چارج سنبھالنے کے بعد جلد ہی نہ صرف کراچی بلکہ حیدرآباد میں بھی قریباً چار بوہری نشانہ بنے۔ یہ بہرحال ایک سوال ہے جس کا جواب نہیں مل رہاہے۔دریں اثناء کچھ ایسے واقعات ہوئے اور کچھ ایسی صورتحال پیدا ہوتی چلی گئی کہ جسٹس فخر الدین جیسے انتہائی غیر متنازع شخص ایک ہی وقت میں کئی تنازعات کے شکنجے میں پھنستے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم سپریم کورٹ کی ان ہدایات کا ذکر کریں گے جو انہوں نے کوئی ایک سال پہلے اپنے ایک آرڈر کے ذریعے جاری کی تھیں۔ اس فیصلے کے تحت الیکشن کمیشن کیلئے خاص طور پر تین ہدایات جاری کی گئیں: (1) کراچی میں حلقہ بندیاں ایک خاص رخ میں نظر آتی ہیں لہٰذا ان کی متعلقہ قوانین کی روشنی میں نظر ثانی کی جائے۔(2) کراچی شہر میں ووٹروں کی گھر گھر جا کر فوج کی موجودگی میں تصدیق کی جائے اور (3)کراچی میں لاکھوں غیر قانونی، غیر ملکی آباد ہیں جن کو نہ صرف نادرا کی طرف سے این آئی سی جاری کیا گیا ہے بلکہ ان کے ووٹ بھی ووٹر فہرستوں میں درج ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ان تینوں ہدایات کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر کا ردعمل عجیب و غریب رہا ہے۔ حلقہ بندیوں کے بارے میں اب تک چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کراچی کی حلقہ بندیوں کو متعلقہ قوانین کی روشنی میں نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کے اس سلسلے میں بیانات چیف الیکشن کمشنر کے موقف سے متضاد ہیں۔ البتہ کراچی میں ووٹروں کے گھروں پر جا کر ووٹوں کی تصدیق کے سلسلے میں فوج کی نگرانی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی لہٰذا کراچی کی اکثر سیاسی جماعتوں کے کراچی میں چیف الیکشن کمشنر آفس کے سامنے دھرنے دینے کے علاوہ ملک گیر پارٹیاں بھی اس سلسلے میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے سامنے بھی دھرنا دے چکی ہیں۔ آخری خبریں آنے تک کراچی کی اکثر سیاسی جماعتیں کراچی میں ووٹرز کی تصدیق کی مہم سے مطمئن نہیں ہیں اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں بداعتمادی ظاہر کی جا رہی ہے۔ جہاں تک کراچی میں ووٹروں کی فہرست میں لاکھوں غیر قانونی غیر ملکیوں کے نام درج ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کا تعلق ہے تو نہ الیکشن کمیشن نے اب تک اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا ہے اور نہ یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے بھی اس سہو کا نوٹس لیکر احتجاج کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ اگر یہ غیر قانونی غیر ملکی بھی پاکستان کے انتخابات میں کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں ووٹ کاسٹ کرتے ہیں توکیا اس مینڈیٹ کو سندھ کا حقیقی مینڈیٹ کہا جاسکتا ہے؟سپریم کورٹ کی ان ہدایات کے علاوہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے سندھ میں ملازمتوں کی بھرتیوں پر فوری پابندی کا اعلان کر کے اپنے لئے ایک اور تنازع پیدا کر دیا ہے حالانکہ ایک دن پہلے انہوں نے اپنے اس حکم میں اس حد تک ضرور ترمیم کی ہے کہ31/اگست 2012ء تک خالی اسامیوں کے بارے میں دیئے گئے اشتہارات کے نتیجے میں دی گئی درخواستوں اور انٹرویوز کے بعد تقرریاں ہو سکتی ہیں مگر اب بھی کچھ قانون دانوں کی رائے ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ایسے احکامات الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ہی جاری کر سکتے ہیں کیونکہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے تک عوام کی طرف سے منتخب حکومت کو کوئی بھی کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔اسی دوران ایک تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کو نئے سرے سے تشکیل دیا جائے کیونکہ کمیشن کے چیف کمشنر کے علاوہ دیگر ممبران کی تقرری بھی بیسویں آئینی ترمیم میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس سلسلے میں ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی تھی جس کی سماعت مکمل ہوچکی اور سپریم کورٹ نے ان کی پٹیشن مسترد کردی ہے ۔ اس طرح فی الحال کوئی بہانہ بناکر الیکشن ملتوی ہونے کا امکان بھی ختم ہوچکا ہے۔ مگر کچھ آئینی ماہرین اس رائے کے ہیں کہ بیسویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں سے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے بارے میں طے کئے گئے طریقے پر من و عن نہیں ہوا ہے۔ بعض حلقوں کی رائے میں اب بھی ایسے خدشات موجود ہیں کہ غیرجمہوری اور غیر سیاسی قوتیں کوئی ایسا کھیل نہ کھیل جائیں جسکے نتیجے میں سارے آئینی اور جمہوری عمل کو ڈی ریل کر کے کوئی لمبی مدت والی ٹیکنوکریٹ حکومت ملک پر مسلط ہو جائے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملک کیلئے بڑی بدقسمتی ہو گی۔ اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا رہا کہ اگر اس بار جمہوریت کو ڈسٹرب کیا گیا تو پورا ملک ہی ڈسٹرب نہ ہوجائے۔ بہرحال یہ تو وقت ہی بتائے گا فی الحال ہم ملک کے جمہوری مستقبل کے ساتھ فخرو بھائی کی غیر جانبداری کے تقدس کو برقرار رہنے کے بارے میں دست بہ دعا ہیں۔
تازہ ترین