• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفد کے دورہ امریکہ سے متعلق مختلف تجزیے اور تبصرے سامنے آ رہے ہیں ۔ 

ہر تجزیہ اور تبصرے میں اس روایتی سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ دورہ کامیاب رہا یا ناکام ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اقوام متحدہ کے زیادہ تر رکن ممالک کے سربراہان حکومت یامملکت نے شرکت کی اور اس کے لیے وہ نیو یارک پہنچے ۔ 

انہیں دورہ امریکا کی دعوت امریکی حکومت نے نہیں دی ۔ یہاں تک وہ عالمی رہنما بھی نیویارک پہنچے ، جنہیں موجودہ حالات میں امریکی حکومت کبھی بھی اپنی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دے ۔ اس کی مثال ایران کے صدر روحانی کی ہے ۔ 

اس طرح وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ امریکا کا سرکاری دورہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے دیگر عالمی رہنماؤں کی طرح جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں شرکت کی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفد کے دوورے کو ’’ کشمیر مشن ‘ ‘ سے تعبیر کیاگیا تھا۔ 

یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مشن کامیاب رہا یا نہیں ؟ یہ سوال اس روایتی سوال کی طرح نہیں ہے ۔ اس مشن کی کامیابی کا معیار ہمارے جذباتی نعرے بھی نہیں ہونے چاہئیں ۔ 

حقیقت میں جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس عالمی رہنماؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔ اس اجتماع میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی بات پہنچانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا اور اس حوالے سے یہ مشن کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی رہنماؤں کی صف میں بہت نمایاں نظر آئے ۔ 

ان کا شمار ان عالمی رہنماؤں میں ہوا، جن کی عالمی سطح پر شہرت کا گراف بہت بلند ہے اور جن کی بات سب سے زیادہ اور بہت غور سے سنی گئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے 5 اگست کے اقدام اور 5 اگست سے اب تک مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام پر ہونے والے بھارتی مظالم سے پوری دنیا کو بہت موثر انداز میں آگاہ کیا اور اس عالمی فورم پر بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ 

 اس دورے کو بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشن کشمیر کی کامیابی کا زیادہ ادراک ہو گا ۔ 

دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی کے باعث پاکستان کو ایسے چیلنجز کا سامنا ہے ، جو پہلے والی حکومتوں کے ادوار سے اس قدر سنگین نہیں تھے ۔ پاک امریکا تعلقات کی نوعیت بہت تبدیل ہو چکی ہے ۔ 

چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے بند باندھنے کے لیے امریکا اور بھارت نئے عالمی اتحادی بن کر سامنے آئے ہیں ۔ بھارت چونکہ پاکستان کا حریف ہے ، اس لیے امریکا نے سرد جنگ کے اپنے پرانے دوست پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بھارت کی وجہ سے اہمیت دینا چھوڑ دی ہے ۔ 

اب وہ بدلے ہوئے حالات میں بھارت کو ترجیح دے رہا ہے ۔ سرد جنگ کے عہد میں پاکستان امریکا کا فوجی اور تزویراتی شراکت دار اور اتحادی تھا ۔ اس خطے میں امریکا کا پاکستان پر بہت زیادہ انحصار تھا ، جو اس وقت بوجوہ کم ہو گیاہے ۔ 

امریکی کیمپ میں رہنے والے پاکستان کا اب جھکاؤ چین کی طرف ہے ۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کے دوست مسلم ممالک بھی نئے حالات میں اپنی معاشی سیاسی اور علاقائی ضرورتوں اور اپنے موجودہ حکمرانوں کے مخصوص مفادات کی وجہ سے پاکستان کا اس طرح ساتھ نہیں دے رہے ہیں ، جس طرح وہ ماضی میں دیتے رہے ہیں ۔ 

 ان حالات میں پاکستان کے پاس وزیر اعظم عمران خان کی بلند قامت شخصیت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جس طرح عالمی سطح پر عمران خان کی شخصیت کو دیکھا جاتا ہے ، اس سے پاکستان کو ’’ پبلک ڈپلومیسی ‘‘ کا بہترین موقع میسر آیا ہے ۔ 

امریکی صدر ٹرمپ کے بعد ’’ گوگل ‘‘ پر سب سے زیادہ سرچ عمران خان کے بارے میں ہوتی ہے ۔ جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر سننے کے لیے دنیا بے تاب رہی ۔ ان کے ٹی وی انٹرویوز کو سب سے زیادہ دیکھاگیا ۔ 

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اس دورے میں ان تھک لیڈر کی طرح کام کیا۔ 

انہوں نے اس دوران 70 سے زائد عالمی رہنماؤں ، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے وفود اور دیگر شعبوں کی شخصیات سے ملاقاتیں کیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھرپور انداز میں مظلوم کشمیریوں کی وکالت کی اور ان کے لیے عالمی حمایت حاصل کی ۔ 

 امریکا اور بھارت اس عالمی ایونٹ میں مختلف ڈرامے کرکے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کراتے رہے کہ وہ چین کے خلاف مضبوط اتحادی ہیں ۔

لیکن وزیر اعظم عمران خان کی شخصیت اور عالمی مقبولیت نے دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف موڑ دی ۔ یہاں تک کہ امریکا نے یہ بیان جاری کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرے ۔ 

امریکی صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر اپنی ثالثی کے لیے بھارت کو تو راضی نہ کر سکے ، البتہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا اور ایران کے درمیان ثالثی کرانے کی ٹھوس پیشکش کر دی ۔ 

عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی کم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے ایک عالمی لیڈر کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ اس دورے میں انہوں نے پاکستان کی داخلی سیاست پر بھی بات نہیں کی ۔

 صرف مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کا مقدمہ لڑا ۔ ان کی گفتگو ایک عالمی لیڈر کے پائے کی گفتگو رہی ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشن کشمیر کامیاب رہا ۔ اگر روایتی سوال کیا جائے کہ یہ دورہ امریکا کامیاب رہا یا نہیں ؟ 

تو اس کا جواب یہ ہے کہ کامیاب رہا۔ بھارت نے جن حالات میں 5 اگست کا اقدام کیا ۔ اب وہ سازگار حالات اس کے لیے نہیں رہے ۔ 

امریکا اور بھارت کے ڈراموں کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دنیا کو اپنے قد سے چھوٹے نظر آئے۔

تازہ ترین