• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کی گئی تقریر یقیناً عام موضوعات سے ہٹ کر تھی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے شروعات کرنے کے بعد عمران خان نے غریب ملکوں سے اربوں ڈالر غیر قانونی طریقوں سے ترقی یافتہ ملکوں میں بھیجے جانے پر سوال اٹھایا اور امیر ملکوں کو باور کروایا کہ غریب ملکوں سے لوٹا جانے والا یہ پیسہ ان کی معیشت کی مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔ کسی زمانے میں سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں دنیا بھر سے کرپشن اور لوٹ مار کا پیسہ اس شرط پر رکھا جاتا تھا کہ ان اکائونٹس کا ریکارڈ کسی صورت افشاں نہیں کیا جائے گا اور منافع ٹیکس کٹوتی کے بغیر خاموشی سے مالکان کو ملتا رہے گا مگر اب یہ حالت ہے کہ تمام ترقی یافتہ اور امیر ممالک بیرونِ ملک سے آئے پیسے کو بغیر زیادہ چھان بین اور ہچکچاہٹ کے اپنے پاس انویسٹ کرنے میں تامل نہیں کرتے۔وزیراعظم کی تقریر کا اگلا موضوع اسلامو فوبیا سے متعلق تھا جس میں انہوں نے ایک مائنڈ سیٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن و سلامتی کا سبق دینے والے مذہب اسلام کو دنیا بھر میں ہونے والے منفی واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ دنیا کا کوئی مذہب دہشت گردی اور نفرت کی تلقین نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ناانصافی اور جبر کی روش کو ترک کرنا ہوگا تاکہ دنیا میں امن قائم ہو سکے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں اور بھارت و کشمیر کے بے بس لاچار مسلمانوں کی حالتِ زار کی طرف دنیا بھر کے لیڈران کی توجہ مبذول کرائی۔اپنی تقریر کے چوتھے اور آخری حصے میں عمران خان نے مظلوم کشمیریوں پر بھارتی انتہا پسند حکومت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا تفصیل سے ذکر کیا۔ لاکھوں کشمیریوں کو گزشتہ پچپن دنوں سے اسیر رکھے جانے پر غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مودی سرکار نے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا اور عالمی برادری خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی تو خونریزی اور تباہی کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کی مودی سرکار ایک فاشسٹ اور انتہاپسند جماعت ہے اور بی جے پی کی بنیاد آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی پہ رکھی گئی ہے جو ہندومت کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ امن کا پرچار کرنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بھیانک ماضی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا یہ وہ شخص ہے جس کی حکومت کے دوران بھارتی ریاست گجرات میں ہزاروں بے قصور مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا اور مودی اپنے حواریوں کے ساتھ تماشا دیکھتا رہا جس کی وجہ سے امریکہ اور دوسرے ممالک نے کئی سال ان کا داخلہ بند کئے رکھا۔اس وقت آر ایس ایس، ایچ ایس ایس، وی ایچ پی، ایچ اے ایف اور اوور سیز فرینڈز آف بی جے پی جیسی انتہا پسند تنظیمیں شمالی امریکہ میں بہت فعال ہیں اور امریکہ میں مقیم بھارتی ان تنظیموں کے پلیٹ فارم اور انفرادی طور پر امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو بھاری رقوم فنڈز کے نام پر دیتے ہیں۔ ٹیکساس کا شہر ہیوسٹن جہاں چند دن پہلے وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ نے ایک جلسے سے خطاب کیا، ان انتہا پسند تنظیموں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ دوسری جانب برسوں قبل امریکہ آنے والے پاکستانی امیگرنٹس کا خیال تھا خلیجی ممالک کی طرح چند سال رہ کر اور ڈالر جمع کرکے واپس لوٹ جائیں گے مگر اب انہیں احساس ہو گیا ہے کہ ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل اب اس مٹی سے جڑا ہے۔ پٹرول پمپس، گروسری اسٹورز، کنسٹرکشن اور ٹیکسی چلانے والے پاکستانی اب آسودہ حال ہیں، ان کے بچے بھی پڑھ لکھ کر امریکی سسٹم میں دھیرے دھیرے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ یہاں امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کی قربانیوں اور وطن کیلئے کی گئی لابنگ کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ تاہم ہمارے اصل ہیرو اور محسن وہ پاکستانی امریکن ہیں جو نہ صرف پاکستانی معیشت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں بلکہ دیارِ غیر میں بھی سبز ہلالی پرچم سینے سے لگائے اپنے تمام کام چھوڑ کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملک اور کشمیر کاز کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین