• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نائن الیون سے پہلے 75فیصد خود کش حملے تاملوں نے کیا جو مذہباً ہندو تھے لیکن کسی نے ہندو مذہب کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا، حالانکہ دہشت گردی کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ یہ الفاظ پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کے ہیں جو انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کہے۔ ان کی بات درست ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد تشدد اور دہشت گردی کے ہر واقعے کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ خاص طور پر مغربی میڈیا بڑے زور و شور سے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔ اسلامی ممالک دہشت گردی کی آماجگاہ ہیں۔ مغربی میڈیا ہمیشہ صرف مسلمانوں کی طرف منسوب واقعات پیش کرتا ہے اور مغرب کے مذموم عزائم پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے جس سے دنیا کی نظروں سے تصویر کا دوسرا رُخ پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ دنیا کو تہذیبِ حاضر کا روشن چہرہ تو دکھائی دیتا ہے لیکن بعض ممالک کا وہ مکروہ چہرہ جو خونِ مسلم سے تر ہے، نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اگر عصبیت سے بالاتر ہوکر منصفانہ ذہن سے پوری دنیا میں تشدد اور دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ اور اسرائیل سرفہرست نظر آئیں گے۔ کئی دہشت گرد گروپ ان کے خفیہ اداروں کے زیر نگرانی مسلم ممالک میں قتل عام کر رہے ہیں۔ افسوس کہ آج یورپ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو خونیں تاریخ کی شکل میں پیش کر رہا ہے جبکہ خود ان کی اپنی تاریخ قتل و غارت گری، خون خرابہ اور بے گناہ معصوم جانوں کو تہ تیغ کرنے سے لبریز ہے۔ یورپ کی خانہ جنگیاں خصوصاً فرانس اور برطانیہ کی پچاس سالہ جنگیں اس کی بین دلیل ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے براعظموں میں وحشیانہ کارروائیاں کی گئیں جن میں لاکھوں انسان قتل کر دئیے گئے۔ امریکہ کے اصلی باشندوں یعنی ریڈ انڈینز کو قتل کرکے جن کی مجموعی تعداد 112ملین ہے، سفید فاموں نے قبضہ کرلیا اور افریقہ کے کروڑوں سیاہ فاموں کو لاکر غلام بنایا۔ تاریخ مظالم سے بھری پڑی ہے جبکہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ عدل و انصاف، عفو و درگزر، امن وامان اور انسانیت کے احترام سے مزین ہے۔ ٹوماس آرنلڈ جو ایک مستشرق تھا، کہتا ہے:اسلامی عہدِ اقتدار میں غیر مسلموں کو جو امن و سلامتی اور جان و مال کا تحفظ حاصل تھا اس کی یورپی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اگر آپ اسلام کی تاریخ پر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو احساس ہوگا، آغاز ہی سے اسلام کی روشنی دنیا کے کونے کونے میں پھیلنا شروع ہوئی اور پھر موجودہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر یورپ، افریقہ اور سینٹرل ایشیا تک مسلمان سلطنتیں قائم ہوئیں۔ اگر ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا تو اس عروج میں بنیادی عنصر مسلمان کا اپنا کردار تھا۔ مسلمان جہاں جہاں گئے وہاں وہاں اپنے ساتھ سچائی، احترامِ آدمیت، ایمانداری، انصاف، مساوات، حیا، محبت، فراخدلی اور خدا خوفی کا پیغام لے کر گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے اعلان کیا تھا: آج سب کو معاف کر دیا گیا ہے۔ اپنی جان کے پیاسوں تک کو معاف کر دیا۔ ہندہ، جس نے آپﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا، آپؐ نے اس کو بھی معاف کر دیا۔ وحشی جس نے حضرت امیر حمزہؓ کو بے دردی سے قتل کیا تھا، آپؐ نے اس کو بھی معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: میرے سامنے نہ آیا کریں کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آ جاتے ہیں۔ یہ اسلام ہی تو ہے جس نے غیروں کی بھی حفاظت کا نہ صرف حکم دیا بلکہ عمل کرکے بھی دکھایا۔ جب بادشاہ نوشیروان کی بیٹی مالِ غنیمت کے ساتھ گرفتار کرکے لائی گئی اور اسے جب دربارِ نبوی میں پیش کیا گیا تو اس کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا۔ آپؐ نے حکم دیا: اس کے سر پر دوپٹہ رکھا جائے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ تو مسلمان نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔ انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی اسلام نے اعلیٰ برتائو کیا۔ جس دنیا کو اندازِ حکمرانی اسلام اور مسلمانوں نے سکھائے آج وہی اسلام اور مسلمانوں کو غیرمہذب، اُجڈ، شدت پسند اور دہشت گرد کہہ رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے تو کل ترقی کی ہے۔ اس کی ترقی کے جو اسباب ہیں، وہی جو اسلام نے عطا کئے۔ تعلیم، انصاف، شورائیت، مساوات، جدید ٹیکنالوجی کا حصول، محنت و مشقت، غریب پروری، عدل… یہ سب وہ احکامات ہیں جن پر عمل کرکے مغرب نے ترقی کی ہے۔ جدید علوم جن کی وجہ سے مغرب اوجِ ثریا پر پہنچا ہے۔ ان میں سے اکثر کی بنیادوں میں مسلمان ہی ہیں۔ بوعلی سینا، ابو ریحان البیرونی، موسیٰ الخوارزمی، الفارابی، یعقوب الکندی، ابن الہیثم، ابن خلدون، ضیاء الدین ابن بیطار جیسے بیسیوں مسلمان ہیں جنہوں نے جدید علوم روشناس کروائے۔ طب وصحت ہو یا سائنس، ریاضی ہو یا فلکیات ہر جگہ مسلمان ہی نظر آتے ہیں۔ مغرب کو اندازِ جہاں بانی، صحرا نشیں اور سادہ منش مسلمانوں ہی نے تو سکھائے ہیں۔ اب دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ علم و عرفان انہی کی میراث ہے۔ اسلام کی خوبیوں اور اس کے عالمگیر نظام کو آج بھی دنیا بھر کے حقیقت پسند افراد مانتے ہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات کا گہری اور عمیق نظر سے مطالعہ کرنے والا غیر مسلم، مسلمان ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اگر وہ کسی وجہ سے مسلمان نہ بھی ہو تو متاثر ضرور ہوتا ہے۔

تازہ ترین