• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون،صدر آصف علی زرداری اور افغان صدر کرزئی نے لندن کی سہ فریقی کانفرنس میں افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی بھرپور حمایت کردی ہے۔ 6ماہ کے اندر افغانستان میں قیام امن کے لئے معاہدہ ہوگا۔ طالبان کا دفتر دوحہ میں کھولنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ 2014ء کے آخر تک افغانستان سے امریکی و نیٹو فوجوں کا انخلاء مکمل ہو جائے گا۔ جن کی واپسی کے بعد ضرورت اس امر کی ہوگی کہ افغانستان سے کشیدگی کا خاتمہ ہو اور وہاں خانہ جنگی سے بچنے کے لئے امریکہ اور بھارت کے اثرات کو ختم کیا جائے ورنہ اس پورے خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ کی12دسمبر2012ء کی اشاعت میں جوناتھن اسٹیل نے افغانستان میں حماقتوں کا عشرہ کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ”امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلاء کی تیاری کر رہے ہیں۔ 2014ء میں انخلاء مکمل ہونے کی صورت میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، سب جانتے ہیں۔ طالبان کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔ مغربی سفارت کار اس تاثر کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے رخصت ہونے کے بعد افغان فوج سیکورٹی کا انتظام بہتر ڈھنگ سے انجام دے سکے گی۔ مگر افغانوں کو ان کی بات کا کم ہی یقین ہے۔ افغانستان کے بارے میں بیرون ملک بھی عوام کی دلچسپی ختم ہوچکی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں لوگ اب افغانستان کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترجیح انخلاء کو دی جانی چاہئے۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی اور سیکورٹی کو ترجیح دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بش اور بلیئر نے بہت سی غلطیاں کیں۔ دس برسوں کے دوران افغانستان میں ایسی حماقتیں سرزد ہوئیں جن کے باعث اتحادیوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہ مل سکی۔ ان حماقتوں سے مغرب کو بہت کچھ سیکھنا ہوگا“۔
یہ تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے کہ امریکہ عراق کے بعد اب افغانستان میں بھی شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔ مشرقی وسطیٰ کے بعد اب جنوبی ایشیاء میں بھی عرب بہار(Arab Spring) جیسی تبدیلی کی لہر نظر آ رہی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک (PEW) کے سروے کے مطابق 82فیصد پاکستانی اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ CNN کے سروے کے مطابق یہ تعداد88فیصد ہے۔ ترکی، تیونس، مصر کے بعد تبدیلی کی لہر پاکستان میں موجود ہے۔ پاکستان میں آئندہ الیکشن میں امریکہ کے حمایتی اور مخالف دو کیمپ مدمقابل ہوں گے۔ پاکستان میں مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق 98 فیصد عوام امریکہ مخالف ہیں اور عالم اسلام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں امریکہ مخالف جماعتوں کو عوامی پذیرائی ملنے کے خاصے امکانات موجود ہیں۔ امریکی جارحیت اور ”پسپائی“ کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ ”سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ“ ایک فریب تھا۔ نام نہاد امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے کردار نے پاکستان کو تباہی اور بربادی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اب امریکہ جو ”مکافات عمل“ کا شکار ہے۔ زخمی سانپ کی مانند وہ افغانستان سے جاتے جاتے پاکستان کو”ڈسنا“چاہتا ہے۔ پاکستان کا امن تہہ و بالا کرکے نیو کلیئر پاکستان کو ناکام ریاست قرار دے کر اس کے ایٹمی اثاثوں پر قابض ہونا امریکہ کا بنیادی ہدف ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو اس کی اس آخری چال سے باخبر ہونا چاہئے اور طالبان سمیت تمام جمہوری قوتوں کو اعتماد میں لے کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ جس کی بدولت امریکہ کی افغانستان سے ”رخصتی‘ پاکستان میں خون خرابے“ کو مزید پروان نہ چڑھا سکے۔ امریکہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے اب افغانستان سے ”چھٹکارا“ چاہتا ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کا یہ امتحان ہے کہ ایک ایسے موقع پر وہ امریکہ کو پاکستان میں ”کھل کھیلنے“ کا کوئی جواز فراہم نہ کرے۔ نائن الیون سے قبل پاکستان میں کوئی خودکش حملہ نہیں تھا یہ سب امریکہ کی افغانستان پر جارحیت اور ڈرون حملوں کی پیداوار ہے۔ آج قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند ہو جائیں تو خودکش حملے خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ وقت اور حالات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان اور اسلامی ممالک ”دہشت گرد“ اور ”انتہا پسند“ نہیں ہیں جتنی بھی انتہاپسندی دنیا میں جنم لیتی ہے وہ مغربی معاشروں سے آتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی، اسلامی شعائر کا مذاق، گستاخانہ خاکے اور گستاخانہ فلم سمیت مغربی دنیا کی”انتہا پسندی“ اور اسلام دشمنی وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتی رہتی ہے اور اس مغربی انتہاپسندی کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک عالم اسلام کے بارے میں اپنا رویہ اور سوچ بدلیں تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔افغانستان کے منظرنامے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں ”تحریک آزادیٴ کشمیر“ کو بھی مزید مضبوطی اور تقویت حاصل ہو گی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے کشمیری مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم پر اقوام متحدہ اور مغربی دنیا چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ انہیں مقبوضہ کشمیر میں خونِ مسلم کی ارزانی بھی نظر نہیں آتی۔ بھارت گزشتہ 22سالوں میں تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کو مقبوضہ کشمیر میں شہید کر چکا ہے۔ ان گنت کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے انٹیروگیشن سینٹرز میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے ”مہذب“ ممالک اور معاشروں کو پاکستان میں ملالہ، رمشامسیح کے ایشوز پر بڑی فکر لاحق ہوتی ہے، مقبوضہ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوج کے ہولناک مظالم نظر نہیں آتے۔ افغانستان سے امریکہ جیسی سپر پاور کا گھٹنے ٹیک کر ”رخصت“ پر مجبور ہو جانا بھارت کے لئے بھی ”نوشتہ دیوار“ ہے کہ وہ انشاء اللہ جلد ”مکافات عمل“ کا سامنا کرے گا اور کشمیری مسلمان آزادی کا سورج طلوع ہوتا ضرور دیکھیں گے۔
عرب اسپرنگ سے پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں بیداری اور تبدیلی کی بڑی لہر پائی جاتی ہے۔ ترکی، تیونس اور مصر میں آئینی اور جمہوری طریقوں سے اسلام پسند جماعتوں کو کامیابی ملی ہے اور امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بجا طور پر درست کہا ہے کہ ”عرب اسپرنگ“ کے بعد اب ”ایشیاء اسپرنگ“ اور”یورپ اسپرنگ“کی باری ہے۔ پاکستان کے عوام اب ایک بڑی تبدیلی چاہتے ہیں اور ایشیاء میں اس نئی بہار کا مرکز انشاء اللہ پاکستان بنے گا۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تذکرہ کیا تو کئی احباب کے فون اور پیغامات موصول ہوئے کہ آپ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو مناسب توجہ دلائی ہے۔ ان کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی پاکستانی حکمرانوں اور عوام پر ایک قرض بھی ہے اور فرض بھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حالت زار پر مکہ مکرمہ سے استاذالشیخ ابومحمد عبداللہ الحجازی نے فتویٰ دیا ہے کہ ”اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیرمسلموں کے ہاتھوں قید ہو تو تمام مسلمانوں اور مسلمان ملکوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور سے آزاد کرائیں۔ امام ابوبکر ابن العربی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ”اگر مسلمان غیرمسلموں کے ملک میں قید ہو جائیں تو تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان کمزور مسلمانوں کی رہائی کے لئے بدنی اور مالی ہر ممکن تعاون کریں یہاں تک کہ ہر مسلمان غیرمسلموں کی قید سے آزاد ہو جائے “۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا یہ پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کے علمائے کرام کو توفیق دے کہ وہ قوم کی حافظ قرآن بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے پوری قوم کو بیدار کریں اور سیاسی رہنما اس کو سیاسی مسئلہ سمجھنے کے بجائے پوری قوم کا مسئلہ سمجھتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کریں۔ امت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور دعاؤں کا اہتمام کرے۔
گزشتہ دنوں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور ممتاز قومی رہنما پروفیسر غفور احمد کی یاد میں لاہور اور کراچی میں بڑے تعزیتی اجتماعات میں ”عرب اسپرنگ“ کے قائدین مہدی عاکف، ڈاکٹر مصطفی کمالک،الشیخ راشد الغنوشی، ڈاکٹر عبدالرحمن البرس، ڈاکٹر ابوبکر صدیق اور امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سمیت قومی قائدین شریک ہوئے۔ اس موقع پر عالمی رہنماؤں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کلمہ کی بنیاد پر اکٹھا ہونا ہو گا۔ قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمد اسلامی تحریکوں کے پشتیبان تھے۔ عالمی اور ملکی سطح پر ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ”عرب بہار“ کی پاکستان آمد، افغانستان سے امریکہ کی ”پسپائی“ کشمیر کی آزادی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ انشاء اللہ ہم دیکھیں گے اور ضرور دیکھیں گے۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے وہ دن کہ جس کاوعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
تازہ ترین