• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ رکاوٹوں کے باوجود ہر طرف آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ سازشی عناصر جنہیں الیکشن میں اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہاہے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ہر الیکشن سے قبل ایسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے جس سے بہت سے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں کہ انتخابات متاثر ہو جائیں گے۔ 2008ء کے الیکشن سے قبل بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا مگر صرف چند ہفتوں کی تاخیر سے انتخابات منعقد ہو گئے اور جمہوریت کا مارچ جاری رہا۔ الیکشن میں بھرپور انداز میں شرکت کرنے کے لئے دونوں بڑی سیاسی قوتیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے انداز میں تیاریاں کر رہی ہیں جس کے دوران انہیں بڑی بڑی خوشیاں بھی مل رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب سوئس حکام نے حکومت پاکستان کو تحریری طور پر بتا دیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات دوبارہ شروع نہیں ہو سکتے اور یہ باب اب بند ہو چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کامیابی کا سہرا صرف اور صرف وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے سر ہے تو بے جا نہیں اور اگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا جائے کہ سوئس حکام کے فیصلے نے بڑے بڑے نامور وکلاء بابر اعوان اور اعتزازاحسن کی قابلیت کو چاروں شانوں چت کر دیا ہے تو بھی بالکل صحیح ہو گا۔ کئی ماہ یہ حضرات سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سوئس حکام کو خط لکھنے کی زبردست مخالفت کر کے صدر اور تمام حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہے اور سارا سرکاری بزنس جام کئے رکھا۔ ان کی عجب منطق تھی کہ خط لکھ کر مقدمات کھلوانا بینظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل ہو گا۔ اس ساری مہم جوئی میں انہوں نے ایک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی قربان کردیا۔ ان کے بار بار انکار نے حکومت کو شدید شرمندگی اور بحران کے علاوہ کچھ نہ دیا اور ساتھ عدالت عظمیٰ کا مذاق بھی انتہائی ظالمانہ انداز میں اڑایا گیا۔ جب فاروق نائیک وزیر قانون بنے تو انہوں نے اس مسئلے کو بہت ہی احسن انداز میں حل کرنے کا آغازکیا۔ نہ ہی انہوں نے سپریم کورٹ کے ساتھ سینگ پھنسائے اور نہ ہی ججوں کا تمسخر اڑایا۔ باہمی مشاورت سے ایک ایسا حل نکالا جو سب کو قابل قبول ہو۔ اس طرح یہ مسئلہ جو دو سال سے حکومت کے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا جس کو وہ نہ نگل سکتی تھی اور نہ ہی باہر پھینک سکتی تھی اختتام پذیر ہوا۔ فاروق نائیک مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب سوئس حکام کا فیصلہ صدر کے لئے خوشیاں لایا ہے اس وقت جب انتخابات سرپر ہیں مگر اس فیصلے سے 6/ارب روپے کی خطیر کرپشن کی رقم جو پاکستان کے خزانے میں آنی تھی وہ نہیں آسکی۔ تاہم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا کہ سوئس حکام نے ان کے موقف کی تائید کردی ہے، سمجھ سے بالا تر ہے۔ عدالت عظمیٰ کا اصرار تھا کہ وہ بطور وزیراعظم خط لکھیں اس پر سوئس حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے بعد کی بات ہے مگر وہ ڈٹے رہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور انہیں سزا اور نااہلی کا دھبہ لیکر گھر جانا پڑا۔پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ (ن) لیگ کو ایک بڑی خوشی نصیب ہوئی ہے وہ ہے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی میٹروبس سروس کا لاہور شہر میں افتتاح جو ترکی کے تعاون سے مکمل ہوئی ہے۔ بلاشبہ یہ شہبازشریف کا بہت بڑا کارنامہ ہے جو اسے یقیناً انتخابات میں صلہ دے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ صرف ان کی وجہ سے ہی ہوا کہ منصوبہ10 ماہ میں مکمل ہو گیا ورنہ پاکستان میں قومی منصوبوں کا جو حال ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کرپشن اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ شہبازشریف ایک جنونی ہیں جس کام پر لگ گئے، لگ گئے پھر مڑ کر نہیں دیکھنا۔انتخابات سے قبل اس منصوبے کی تکمیل کو انہوں نے اپنے لئے ایک بڑا چیلنج بنا لیا تھا۔ انہوں نے وہ کر دکھایا جو شاید دوسرے حکمران ہوتے ہوئے ممکن نہ تھا۔ اس پر30/ارب روپے لاگت آئی ہے ۔ لاہور جیسے گنجان شہر جہاں آبادی کا طوفان آیا ہوا ہے اور جو دن بہ دن پھیل رہا ہے اس طرح کی بس سروس وقت کی اشد ضرورت تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس طرح کی سہولت کراچی جیسے شہر میں متعارف کرائی جاتی مگر قائم علی شاہ جیسے بے بس وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی بہتری کی توقع رکھنا فضول ہے۔ نہ صرف انہوں نے بلکہ صدر زرداری نے اس” روشنیوں کے شہر “ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے جہاں مافیا حکمرانی کر رہاہے۔ میٹرو بس سروس کے سب سے بڑے ناقد قاف لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ہیں جو اس کو جنگلا بس کا نام دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ اس پر70/ارب روپے غرق کر دیئے گئے ، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے فنڈ بھی اس پر خرچ کر دیئے گئے۔ ان کی مخالفت سیاسی ہے جس میں زیادہ وزن نہیں تاہم ان کا جمہوری حق ہے کہ وہ آئندہ انتخابات پر نظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو سرے سے مسترد کر دیں اور جس انداز میں چاہئیں شہبازشریف کو تنقید کا ہدف بنائیں۔ میٹرو بس سروس کے افتتاح کے دن ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے تھا مقصد وزیراعلیٰ کے کارنامے سے توجہ ہٹانا تھا۔ اس موقع پر ان کے احتجاج سے ہٹ کر اگر ان ڈاکٹرز کے رویہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ انتہائی شرمناک ہیں۔ وہ مسیحا کم اور طاقت کا استعمال کرنے والے اجڈاور ان پڑھ زیادہ لگتے ہیں۔ انہیں اپنے رویّے پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے علاوہ پیر پگاڑا کو بھی ایک بڑی خوشی نصیب ہوئی ہے۔ وہ 10 سیاسی جماعتوں جن کا سندھ میں اثرورسوخ ہے سے مل کر آئندہ انتخابات لڑیں گے۔ پیر پگاڑا اپنے والد کی روایات سے بہت ہٹ کر سیاست کر رہے ہیں۔ اس کا پہلا مظاہرہ انہوں نے حیدرآباد میں ایک بہت بڑا عوامی جلسہ کر کے کیا تھا۔ ان کے والد گرامی نے کبھی بھی جلسے جلوسوں کی سیاست نہیں کی۔ وہ زیادہ ڈرائنگ روم سیاست تک ہی محدود رہے۔ وہ کبھی بھی سیاسی طور پر پرو ایکٹو نہیں ہوئے مگر نئے پیر پگاڑا ایک عام مستعد سیاستدان کی طرح اس میدان میں سرگرم ہیں۔ ان کا پیپلزپارٹی سے4 سال سے زیادہ اتحاد کو ختم کرنا ایک بہت جرأت مندانہ فعل تھا۔ جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا تو پھر اس پر ڈٹ گئے۔ اس کی وجہ ان کی بلدیاتی نظام کا نیا قانون جو پیپلزپارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر سندھ اسمبلی سے پاس کیا تھا کی مخالفت تھی۔ سندھ کی تمام قوم پرست جماعتیں اس وقت پیر پگاڑا کی قیادت میں متحد ہیں۔ ان کی نظریں آئندہ انتخابات پرلگی ہیں جس میں وہ پیپلزپارٹی کو شکست دے کر سندھ کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کا اتحاد پیپلزپارٹی سے بہت دور ہے تاہم یہ (ن) لیگ کے بہت قریب ہے۔ اگرچہ اس اتحاد اور (ن) لیگ میں ابھی تک کوئی فارمل الائنس تو نہیں ہوا مگر شواہد بتاتے ہیں کہ وہ الیکشن کے دوران اور بعد میں سیاسی میدان میں اکٹھے چلیں گے۔
تازہ ترین