• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیری مسلمان اپنے جذبہ آزادی کی آج بھاری قیمت ادا کررہے ہیں اور اب منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

اگرچہ مسلم ممالک نے ان نہتے اور حق سے محروم کشمیری مسلمانوں سے زبانی اظہار ہمدردی بھی نہیں کیا اس کے باوجود ان کی تحریک آزادی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ کوئی نہیں جانتا کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی میں تیزی آتی ہے تو کراچی میں بدامنی شروع ہوتی ہے، یہ بھارت کا نیٹ ورک ہی تھا کہ کراچی میں لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کا دور شروع ہوا۔

بھارت کو ایسے سہولت کار میسر ہوگئے کہ سال کے365دنوں میں300دن کرفیو لگا رہا، دھماکے، بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، جلائو گھیرائو، علیحدگی کے نعرے یعنی بھارتی مذموم سازشوں نے پاکستان کی معاشی شہ رگ کاٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب دشمن کو کراچی میں محنت کی ضرورت نہیں، علیحدگی پسند تحریکیں قوم پرست جماعتوں کی شکل میں موجود ہیں۔

اب بلوچستان میں سی پیک منصوبہ اس کے دشمنوں (پاکستان اور چین) کی کامیابی اور پاکستانی معیشت میں بہتری کا منصوبہ ہے لیکن پاکستان کی عسکری قوتوں نے بھارت کی کمر کراچی اور بلوچستان میں توڑدی ہے۔ یہ بہت اچھا وقت ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی کا زور بڑھا چونکہ اب کراچی ہو یا بلوچستان، بھارتی سازشیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ بنانے کا بھارتی فیصلہ، اسکی پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ناکامی کی انتقامی کارروائی ہے۔

اب ضروری ہوگیا ہے کہ کراچی کو کراچی کا حقیقی مقام دیا جائے۔ کراچی تباہ و برباد ہے، اس شہر کی ازسرنو تعمیر ضروری ہے اور اس کے ساتھ گھوسٹ افسران کی رخصتی بھی۔ یہ نااہل افراد تھے جو معمولی نوکریوں پر بھرتی ہوئے اور اپنی نااہلیت کے باعث کراچی کو برباد کیا، صرف ایک قائم خانی کی مثال آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔

سندھ کیلئے یہ بات قابلِ فخر ہے کہ اس نے بھٹو جیسا عالمی رہنما پیدا کیا، ملک کی سیاسی جماعتوں نے جب لسانی کارڈ کھیلا تو یہ بھٹو ہی تھا جس نے اس فتنے کا سدباب کیا، ملازمتوں کے لئے دیہی اور شہری کوٹہ مقرر کیا اور بھٹو کے دور میں اس پر عملدرآمد بھی ہوا، بے نظیر نے بھی اس کا پاس رکھا لیکن بعد کے رہنمائوں نے بھٹو اور بے نظیر کا طریقہ کاربدل دیا، آج کراچی کے نوجوانوں کے لئے روزگار پر تالے ہیں، کراچی کے ترقیاتی کام صفر ہیں، نہ پینے کے لئے پانی ہے نہ بجلی۔

کوئی سیاسی جماعت کراچی کے مسائل کے لئے کھڑی نہیں ہو رہی کیونکہ ان جماعتوں کے من پسند سفارشی لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہوں پر کے الیکٹرک اور دوسرے اداروں میں ملازم ہیں۔

یہ دعوے تو کیے جاتے ہیں کہ کراچی پاکستانی معیشت کی شہ رگ ہے، کراچی پاکستان کا دل ہے، یہ باتیں کرنے والے رہنما کراچی کی سڑکیں دیکھ لیں اور بتادیں کہ کوئی ایک سڑک بھی ایسی ہے جیسی ترکی یا ایران کی سڑکیں ہیں، سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں اور استرکاری کے بعد ٹھیکے کی تمام رقم مل بانٹ کر ہڑپ کرلی جاتی ہے، گھنٹوں کے ٹریفک جام کے بعد اگر شہری حکومت کو گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں، کراچی جیسے بڑے صنعتی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کہیں وجود نہیں۔

ہزاروں ناقص گاڑیاں من مانے کرائے لے کر عوام کا خون چوس رہی ہیں، پانی کا نظام ناقص، سیوریج کا نظام ناقص، تو پھر نہ ان اداروں کی ضرورت ہے اور نہ وزیروں کی، خدا کے لئے کراچی پر رحم کھائو، کہیں یہ شہر پھٹ نہ پڑے، کراچی شہر کو بچانے کے لئے اس کی ازسرنوتعمیر، گھوسٹ بیوروکریسی کا خاتمہ ضروری ہے۔

کراچی کی ازسر نوتعمیر کے لیے ہمیں طریقہ کاروضع کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جو میئر کراچی، کمشنر، پانچوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، 18ٹائونز کے چیئرمین، KPT، ریلوے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے نمائندوں پر مشتمل ہو، پہلے پلان بنائے اور مرحلہ وار کام کا آغاز کرکے کراچی کو نئے زندگی دے جس میں سڑکوں کی تعمیر نو، سیوریج کی لائنیں، پانی کی لائنیں، ٹریفک رواں دواں رکھنے کے لئے اپنے اپنے علاقوں کی متبادل سڑکیں تعمیر کرے۔

کراچی کی ازسر نوتعمیر کا کام صوبائی حکومت اور میئر کریں تو یہ صوبائی حکومت کے ہی فائدے میں ہوگا اور اگر نہیں کرتے تو کوئی اور نہیں آئے گا، پھر عدالت یہ کام کرے گی۔

تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ مرکز کو واقعی کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اسے صرف آمدنی چاہئے کراچی سے۔

میٹرو بس منصوبہ مرکزی حکومت کا تھا، برسوں سے جاری ہے مکمل نہیں ہورہا، مرکز کو ریونیو چاہئے، عوام کو سہولت دیئے بغیر عوام کو ریلیف دیئے بغیر آمرانہ انداز میں ریونیو وصول کیا جاتا ہے، کراچی والو اپنے حقوق کے لئے بیدار ہوجائو، آئینی طریقوں پر اپنے مسائل کے حل کے لئے آگاہی پیدا کرو، صوبائی حکومت سے آئینی طریقے سے حق مانگو، اپنے شہر کو بنانے کی سوچ پیدا کرو۔

اس شہر میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بسنے والے لوگوں میں سے دوکروڑ وہ ہیں جو صرف مال کمانے کراچی میں آئے ہیں، وہ اس شہر کے اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں، یہ کراچی کے باسیوں کا ہی کام ہے کہ وہ اپنے شہر کی فکر کریں۔

تازہ ترین