• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی میڈیسن پالیسی بنانے کے لیے اسٹیرنگ کمیٹی قائم

قومی میڈیسن پالیسی بنانے کے لیے اسٹیرنگ کمیٹی قائم کردی گئی۔


وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان کے فارما سویٹیکل سیکٹر میں اصلاحات کے لیے انہوں نے ایک اسٹیرنگ کمیٹی قائم کردی ہے جو پاکستان کی پہلی قومی میڈیسن پالیسی کی تیاری میں مصروف ہیں۔

قومی میڈیسن پالیسی 6مہینے میں تیار ہوجائے گی، جس کے بعد ادویات کی فراہمی، قیمتوں کا تعین، مریضوں کا تحفظ اور پاکستان میں ادویہ سازی کے شعبے میں تحقیق کا دروازہ کھل جائے گا۔

پاکستان میں لوگوں کو انجکشن لگنے کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے جہاں پر ہر شخص کو سالانہ 8انجکشن لگائے جاتے ہیں، بد قسمتی سے ان میں سے 95 فیصد غیر ضروری ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سالانہ کئی ہزار لوگ دواؤں کے غلط استعمال سے جاں بحق اور معذور ہوجاتے ہیں لیکن ملک میں اب تک دواؤں کے مضر اثرات جاننے کا کوئی موثر سسٹم موجود نہیں، نئی ہیلتھ پالیسی میں ان تمام ایشوز کا مکمل احاطہ کیا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس (پی ایس ایچ پی) کے زیر اہتمام ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف، پی ایس ایچ پی کے صدر عبد الطیف شیخ، عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ماہر ادویات پروفیسر البرٹ فگارس، پی ایس ایچ پی کی خزانچی اُمیمہ مزمل، شفا انٹرنیشنل اسپتال کی فارماسسٹس سلویٰ احسن، فرانس سے آئے ہوئے فرخ ملک سمیت دیگر ملکی و غیرملکی ماہرین نے خطاب کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آج تک کوئی قومی سطح کی میڈیسن پالیسی بنائی ہی نہیں گئی، جس کے نتیجے میں آج تک دواؤں کے مضر اثرات سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہو ں نے دواؤں کی تباہ کاریوں کا عملی مظاہرہ 1993میں جاپان کے دورے کے دوران دیکھا جہاں پر 60سے 70نابینا اور ذہنی و جسمانی معذور افراد ان کے سامنے لائے گئے جو کہ ایک عام دوا کے مسلسل استعمال سے متاثر ہوئے تھے۔

بد قسمتی سے وہ دوا تیس سال تک استعمال ہوتی رہی لیکن چونکہ دواؤں کے مظر اثرات جاننے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا، اس لیے کسی کو ان واقعات کی خبر ہی نہ وہ سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 95فیصد سے زائد انجکشن غیر ضروری طور پر لگائے جاتے ہیں اور پاکستان میں ہر فرد کو سالانہ 8انجکشن لگائے جا تے ہیں جن کی قطعا ضرورت نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیرمحفوظ انجکشن کی نتیجے میں متعدی امراض بڑھ رہے ہیں۔

انہو ں نے اس موقع پر پی ایس ایچ پی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ سوسائٹی اور حکومت مل کر ملک میں دواؤں کے محفوظ استعمال کو فروغ دیں گے۔

ہسپانوی ماہر ادویات پروفیسر البرٹ فگارس کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ادویات ٹافیوں کی طرح کھائی اور مشروبات کی طرح پلائی جاتی ہے، پاکستانی عوام کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سوائے سر درد کی چند ادویات کے باقی تمام ادویات اگر ڈاکٹر اور ماہرین کے مشورے کے بغیر استعمال کی جائیں تو یہ نہ صرف ان کو اور ان کے بچوں کو ہلاک کر سکتی ہیں بلکہ زندگی بھر کے لیے معذور بھی کر سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو داؤں کی نگرانی کا ایک موثر نظام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی اموات اور معذوری کو روکا جا سکے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف کا کہنا تھا کہ ادویہ سازی کے سلسلے میں ڈبلیو ایچ او، لیول تھری کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔

ڈریپ سے کرپشن کے خاتمہ و شفافیت کے فروغ کیلئے کوششیں جاری ہے۔ دواؤں کے مضر اثرات کو جاننے کیلئے سسٹم تیار کیا جارہا ہے، محفوظ ادویات کی تیاری و عوام کو مضر اثرات سے بچانے کیلئے فارماسسٹس کا اہم کردار ہے، ہمیں پاکستان میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

پی ایس ایچ پی کے صدر عبد الطیف شیخ کا کہنا تھا کہ ان کی سوسائٹی ڈریپ کے ساتھ مل کر نہ صرف فارماسسٹس بلکہ عوام کی تربیت کے لیے کوشاں ہے تاکہ انسانی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے، پاکستان میں ادویات کے ذریعے علاج کی شرح بہت زیاد ہ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں محفوظ طریقے سے استعمال کیا جائے۔

تازہ ترین