• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس طریقے سے نہیں دیا جانا چاہئے تھا جس طریقے سے دیا گیا لیکن پروفیسر علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایسا ہی جواب ملنا چاہئے تھا جیسا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں دیا ہے۔ ان کو اسی طرح ہی کی شٹ اپ کال ملنی چاہئے تھی۔ اسلام آباد دھرنے کے دوران ”کہو سپریم کورٹ زندہ باد“ کے ڈرامے کے ذریعے انہوں نے اچھے بھلوں کے ذہنوں میں بھی یہ تاثر اتاردیا تھا کہ اس سازش میں سپریم کورٹ بھی شریک ہے اور اپنی ساکھ کو سپریم کورٹ اسی طرح کے کسی جواب کے ذریعے ہی بحال کرسکتی تھی ۔ فیصلے سے دل ٹھنڈا ہوگیا لیکن پھر بھی یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ ظاہری اور سیاسی بنیادوں پر عدالتوں کے فیصلوں کا رجحان درست نہیں اور اگر قادری صاحب کی پٹیشن کو سن کر اسے قانونی بنیادوں پر مسترد کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ بہر حال انتخابات کے خلاف سازش کا ایک مہرہ تو پٹ گیا ۔ وہ سرگرم پھر بھی رہے گا۔ وہ مزید ڈرامے تخلیق کرسکتے اور ہمارے دوست ڈاکٹر یونس بٹ کے پروگرام ”ہم سب امید سے ہیں“ کے لئے مزید مواد فراہم کرسکتے ہیں لیکن اب انتخابات سے قبل دوبارہ ان کے لئے ماحول بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم قادری ڈرامے کے فلاپ ہوجانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انتخابات اور جمہوری نظام کے خلاف مزیدکوئی سازش نہیں ہوگی۔ حملے مزید ہوں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ سب کے سب ناکام ہوں گے ۔ اب انتخابات کا وقت پر ہونا اٹل ہوگیا ہے اور کمال کی بات ہے کہ انتخابات کے بارے میں یقین کا یہ خیر کسی اور کے نہیں بلکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مجوزہ شر سے ہی برآمد ہوا ہے ۔ مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے ‘ کے مصداق مغرب سے براستہ پنڈی آئے ہوئے اس طوفان نے پاکستان کے سیاستدان کو کچھ وقت کے لئے سیاستدان بنادیا۔ انہی کے دھرنے اور اس کے پیچھے چھپی سازش کے خوف سے اُس ہفتے آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف ایک بار پھر شیروشکر ہوگئے۔ کئی خفیہ رابطے ہوئے اور سازش کرنے والوں کو پیغام دیا گیا کہ سسٹم کے خلاف کسی بھی اقدام کی صورت میں جاتی امراء اور لاہور میں نوتعمیر شدہ بم پروف بلاول ہاوس کے مکین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کریں گے ۔ اسی دھرنے کی برکت سے میاں نوازشریف ایک ہفتے کیلئے بادشاہت چھوڑ کر سیاست کی طرف آگئے اور اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر سسٹم اور جمہوریت کے حق میں زوردار اعلامیہ جاری کروا دیا ۔ اس موقع پر ایک طرف ان کے مولانا فضل الرحمن اور دوسری طرف سید منور حسن یا پھر ایک طرف طلال بگٹی اور دوسری طرف محمود خان اچکزئی کھڑے تھے جو کہ سازش کرنے والوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا۔ اب آخری مہربانی بھی قادری صاحب نے ہی کردی ۔ کیونکہ ان کے پٹیشن کے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ جاری کردیا ‘ اس نے انتخابات کے خلاف اس سازش کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت اور عدلیہ کے مابین تناؤ جیسا بھی ہے ‘ لیکن عدلیہ پھر بھی سسٹم اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ لیکن کیا اس کے بعد جمہوریت سے عوام مطمئن ہوجائیں گے اور کیا اس کے بعد جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوششیں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گی ؟‘ میرے نزدیک ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، وجہ صاف ظاہر ہے ۔ جب تک سیاسی قیادت اہلیت اور شفافیت کا مظاہرہ نہیں کرے گی ‘ نظام کو خطرات لاحق رہیں گے اور بدقسمتی یہ ہے کہ موقع ملنے کے باوجود سیاسی قیادت اپنے اوپر عوام کا اعتماد بحال نہیں کرپارہی ۔ اس کی ترجیحات پہلے بھی غلط تھیں اور آج بھی غلط ہیں۔ بعض حوالوں سے وہ سدھری نہیں بلکہ مزید بگڑی ہے ۔ مثلاً قومی سلامتی کے معاملات لے لیجئے ۔ یہ قیادت پچھلے پانچ سالوں میں ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکی اور نہ اس حوالے سے مطلوبہ اہلیت پیدا کرسکی ۔نیٹو سپلائی کی بندش کے بعد پارلیمنٹ پر بحث کے دوران سیاسی قیادت کی یہ بے خبری اور نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ عسکری پسندی اور دہشت گردی جو پاکستان کا نمبرون مسئلہ ہے کو اگر سیاسی قیادت ذرہ بھر بھی اہمیت دیتی تو کیا اسے رحمن ملک صاحب کے سپرد کرتی۔ جنرل کیانی تو کیا اگر حامد کرزئی کے پاس بھی اختیار ہو تو وہ یہ معاملات رحمان ملک کے سپرد نہیں کریں گے ۔ ان معاملات سے نہ زرداری صاحب کو دلچسپی ہے اور نہ میاں نوازشریف کو۔ ایسے عالم میں جبکہ افغانستان اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں گیم کا پورا اسٹرکچر تبدیل ہورہا ہے ‘ وہ دونوں اپنے اپنے سیاسی قلعوں کو مضبوط کرنے میں مگن ہیں ۔ جس روز اسلام آباد میں دہشت گردی کے معاملے پر اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس ہورہی تھی ‘ اس میں شرکت کی بجائے میاں صاحب لاڑکانہ میں زرداری صاحب کے سیاسی قلعے میں نقب لگانے میں مصروف تھے جبکہ زرداری صاحب اپنے نو تعمیر شدہ بم پروف محل میں میاں صاحب کے سیاسی قلعے (لاہور) میں مورچہ زن تھے ۔ جبکہ وزیراعظم اپنے اہل خانہ کے ساتھ لندن کے شاپنگ مالوں میں گھومتے ہوئے گیلانی روایت تازہ کررہے تھے ۔ اے این پی کی قیادت نے کافی عرصہ سے آل پارٹیز کانفرنس کا غلغلہ بلند کررکھا تھا لیکن کانفرنس کے دوران اس معاملے کوخود اے این پی اور شریک جماعتوں نے جس طریقے سے ڈیل کیا اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔ جو اعلامیہ جاری ہوا ہے نہ وہ نر ہے نہ مادہ ۔ اس میں نہ امریکہ کا ذکر ہے ‘ نہ افغانستان کا ۔ نہ آرمی کا ذکر ہے اور نہ طالبان کا۔ نہ کوئی لائحہ عمل اور نہ کوئی روڈ میپ۔ اس مشق کا فائدہ ہوا تو صرف یہ کہ ہمیں نکلا چوہا ‘ کھودا پہاڑ ‘والے محاورے کی سمجھ آگئی ۔ اس ہلہ گلہ میں خیبر پختونخوا کے گورنر کی تبدیلی عمل میں آئی ۔خیبرپختونخوا کا گورنر چونکہ قبائلی علاقوں کا چیف ایگزیکٹو ہوا کرتا ہے ‘ شاید اس لئے فوج مطالبہ کررہی تھی کہ نیا گورنر قبائلی علاقوں سے لایا جائے ۔ بعدازخرابی بیسیار گزشتہ ہفتے باجوڑ ایجنسی سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر انجیئنرشوکت اللہ گورنر مقرر کئے گئے لیکن تقرر کے اگلے روز یہ ایشو سامنے آیا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رو سے تو اب کوئی قبائلی گورنر ہی نہیں بن سکتا۔ اب اٹھارویں ترمیم بنانے والے ہمارے عالی سیاسی دماغوں کا کارنامہ دیکھ لیجئے ۔ گورنر قبائلی علاقہ جات کا چیف ایگزیکٹو ہوا کرتا ہے لیکن ان کے بنائے ہوئے قانون کی رو سے وہاں کا رہنے والا سرے سے گورنر ہی نہیں بن سکتا۔ اب اگر کل یہ قانون بنادیا جائے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ پنجاب کا باشندہ نہیں ہوسکتا تو اسے کیا کہا جائے گا لیکن قبائلی علاقہ جات کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ گورنر صوبے کا نمائشی اور آئینی سربراہ ہوتا ہے لیکن خیبرپختونخوا کا گورنر فاٹا کا براہ راست چیف ایگزیکٹو بھی ہوا کرتا ہے۔ آئین کی رو سے قبائلی علاقے کا رہائشی صدر اور وزیراعظم بھی بن سکتا ہے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا رکن بھی منتخب ہوسکتا ہے لیکن نہیں بن سکتا تو گورنر نہیں بن سکتا ۔ اب یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کی جو کمیٹی بنارہی تھی ‘ اس میں فاٹا کے پارلیمنٹیرین کے لیڈر حاجی منیر اورکزئی بھی شامل تھے لیکن انہوں نے اس نکتے کو سمجھا اور نہ اٹھایا۔ نو منتخب گورنر شوکت اللہ سنجیدہ اور بھلے مانس انسان ہیں ۔ انہوں نے اپنے مسئلے کا پہلے سے حل نکال رکھا تھا اور میری معلومات کے مطابق ان کی گورنرشپ کو کوئی خطرہ نہیں لیکن جو کچھ پارلیمنٹیرین نے کیا‘ کیا وہ قبائلی علاقوں کے ساتھ ظلم یا پھر ان کی نااہلی اور غیرسنجیدگی کی انتہا نہیں ؟۔ خطرات کم ہوگئے ہیں لیکن یکسر ٹلے ہر گز نہیں ۔ جب تک سیاستدان نااہل‘ کرپٹ اور غیرسنجیدہ رہے گا ‘ جمہوریت کو خطرہ برقرار رہے گا۔ شاید چرچل نے کہا تھا کہ جنگ اس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے جنرلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا حالانکہ جنگ جنرل ہی لڑا کرتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں کی اگر یہ حالت رہی تو یہاں لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ جمہوریت سیاستدان ہی چلاتے ہیں لیکن سیاست ایسا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے صرف سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔
تازہ ترین