• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں تبدیلی کی لہر اور ”شیخ الاسلام “کی نئی قلابازی

ہمارے سندھی ڈرائیور کا کہنا تھا، ”سائیں! اس سے پہلے یہاں اس طرح کے جلسے بی بی شہید کے ہوتے تھے“۔ یہی بات سندھی اخبار نویس بھی کہہ رہے تھے۔ تعداد کی بات ہوئی تو سندھی دانشور کا کہنا تھا، اصل چیز لوگوں کی انوالومنٹ ہے، ان کا جوش و جذبہ ، والہانہ پن اور یکجہتی و شیفتگی کا اظہار۔ نوڈیرو، بھٹوز کا شہر، محترمہ کا حلقہ انتخاب، اب نواز شریف کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھا۔ گراوٴنڈ میں جگہ نہ رہی تو لوگ سٹیڈیم کی دیواروں اور چھتوں پر چڑھ گئے۔ باہر سڑک پر بھی اژدھام تھا۔ قریبی دکانوں اور مکانوں کی چھتوں کا منظر بھی مختلف نہ تھا۔ جلسے میں ممتاز بھٹو کا خطاب جنابِ زرداری اور ان کے رفقا کے خلاف ایک طرح کی چارچ شیٹ تھی۔ سید غوث علی شاہ بھی بطور تبرک مائیک پر آئے۔ نواز شریف کا ہاتھ اہل ِ سندھ کی نبض پر تھا اور دل ان کی مٹھی میں ۔ انہوں نے سندھی نوجوانوں کے دلوں کے تار بھی چھیڑے اور جواب میں جواں جذبوں کا خراج وصول کیا۔ واپسی پر سڑک کے دونوں جانب ہاتھ ہلاتے اور نعرے لگاتے ہوئے ہجوم میں گاڑیاں چیونٹی کی چال چل رہی تھیں۔ صبح موہنجوداڑو ائیر پورٹ سے لاڑکانہ شہر آتے ہوئے مختلف جگہوں پر بھی یہی مناظر تھے۔ جناب ممتاز بھٹو میاں صاحب کے میزبان تھے اور شہر مہمان اور میزبان کی تصاویر سے سجا ہوا تھا۔ مسلم لیگ کے جھنڈوں اور بینروں کی بہار الگ تھی۔ کہیر ہاوٴس میں سردار رضوان کہیر نے اپنے قبیلے اور دوست احباب سمیت مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا۔ امریکہ سے فارغ التحصیل سردار رضوان کا شمار سندھ کے روشن خیال ذمہ داروں میں ہوتا ہے۔ مولانا جان محمد عباسی مرحوم کے صاحبزادے قربان علی عباسی بتا رہے تھے کہ 1965 میں مولانا مودودی سندھ کے دورہ میں یہیں ٹھہرے تھے۔ قربان عباسی اپنے والد کی نیک نامی کا اثاثہ بھی رکھتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے اپنی خدمات کا سرمایہ بھی۔ اسی بنا پر وہ تین بار لاڑکانہ کے تحصیل ناظم بھی رہے ، اب سندھ میں نواز شریف کے سیاسی قافلے کے نمایاں افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ مولانا جان محمد عباسی مرحوم بھی جماعت اسلامی کے اس حلقے میں تھے جو مسلم لیگ سے مخاصمت کی بجائے تعاون اور مفاہمت کا حامی تھا۔ لاڑکانہ سے نوڈیرو کے راستے میں بھی ڈھول کی تھاپ پر رقص سمیت اظہارِ وابستگی کے وہی قرینے تھے۔
نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں اہل ِ سندھ کو اپنے دل سے قریب رکھا۔ عبداللطیف بھٹائی ، سچل سرمست اور شہباز قلندر کی دھرتی ان کی توجہ کا خصوصی مرکز تھی۔ انہوں نے سندھ کے عام آدمی ، یہاں کے ہاریوں اور بے زمین کاشتکاروں کو عزت بھی دی اور زمین بھی۔ یہاں ڈاکو راج کے خاتمے کے لئے انہوں نے جو اقدامات کئے ، اہل ِ سندھ اسے بھی نہیں بھولے۔ محبت کا جواب محبت سے دینے والے سندھی عوام نے بھی قرض اتارنے میں کوتاہی نہ کی۔ 1997 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی کی 18 نشستیں تھیں تو مسلم لیگ بھی یہاں سے 12 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ نواز شریف اپنی جلاوطنی کے دوران بھی اہل ِ سندھ کو نہیں بھولے تھے۔ تب ہم بھی جدہ کے ایک اخباری ادارے سے وابستگی کی بنا پر وہیں ہوتے تھے۔ سرور پیلس بھی آنا جانا رہتا۔ سندھ سے آنے والے مہمانوں سے میاں صاحب بطورِ خاص یہاں کے احوال پوچھتے۔ وطن واپسی پر بھی وہ سندھ کے متعلق بہت حساس رہے۔ تاریخ کے بدترین سیلابوں میں جہاں پنجاب کی شہباز شریف حکومت نے مصیبت زدہ سندھی بھائیوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی وہاں نواز شریف نے بھی مردہ جانور وں کی سڑاند سے آلودہ ماحول اور متعفن پانیوں میں گھرے ہوئے سندھی بہنوں اور بھائیوں کے دکھ درد میں شرکت میں تاخیر نہ کی۔ وہ ان علاقوں میں بار بار گئے۔ نوڈیرو کے جلسہ عام میں نواز شریف کا کہنا تھا، سندھ بیدار ہو گیا ہے، سندھ بدل رہا ہے، لاڑکانہ بھی بدل رہا ہے۔ سندھی دانشور کے بقول جس طرح لاہور پنجاب کا سرکاری دارالحکومت ہی نہیں، ”سیاسی دارالخلافہ“ بھی ہے۔ اسی طرح لاڑکانہ کی سیاست بھی سندھ کو متاثر کرتی ہے۔ نئے پیر پگاڑہ بھی سرگرم ہیں۔ وہ نواز شریف کو اپنا بڑا بھائی قرار دیتے اور مسلم لیگ (ن )سے تعاون کا خاص رحجان رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے فنکشنل لیگ کا تعاون وہ ختم کر چکے۔ جنابِ یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے ذریعے انہیں دوبارہ زیرِ دام لانے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں۔ نواز شریف کراچی پہنچ چکے جہاں پیر صاحب سے ملاقات میں سندھ میں انتخابی تعاون مذاکرات کا اہم ترین نکتہ ہے۔ سندھی قوم پرستوں کا رحجان بھی نواز شریف کی طرف ہے۔ ق لیگ والوں کی انتخابی ضرورتیں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ نواز شریف سندھ میں نان پیپلزپارٹی عناصر کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے پیپلز پارٹی کو کتنا ٹف ٹائم دے پائیں گے؟ اس میں کئی ”اگر مگر “( (Ifs and butsآتے ہیں لیکن ایک بات کا اعتراف تو سبھی کرتے ہیں کہ سندھ میں اب پیپلز پارٹی کو واقعی سخت مقابلہ درپیش ہو گا۔
ادھر نواز شریف کو ان کے اپنے صوبے میں مشکلات سے دو چار کرنے کے لئے ان کے مخالف تمام عناصر منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ مبینہ طور پر تحفے میں حاصل کئے گئے بلٹ پروف بلاول ہاوٴس میں جنابِ زرداری کے 6 روزہ قیام کا بیشتر وقت اسی حوالے سے صلاح مشوروں، رابطوں اور ملاقاتوں میں گزرا۔ کچھ عرصہ پہلے وہ کپتان کے سونامی کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے اپنے لئے نعمت (Blessing) سمجھتے تھے۔ سونامی اترنے لگا (کہ تباہی و بربادی پھیلانے کے بعد سونامی کو آخر اترنا ہی ہوتا ہے) تو اب ان کی امیدوں کا مرکز ”شیخ الاسلام“ ہیں جن کے صدقے واری جا کر ان کا قد کاٹھ بڑھانے کی خاصی کاوش ہو چکی۔ کپتان نے پہلے بالواسطہ طورپر کمک پہنچائی جب ان کا گھریلو کالم نگار ”شیخ الاسلام“کو پاکستان کا ”انا ہزارے “قرار دینے لگا اور پھر نواز شریف دشمنی سے مغلوب ہو کر اپنے دونوں سیاسی خلفا کی زیرِ قیادت ایک بھاری بھرکم وفد ان کی بارگاہِ عالیہ میں پہنچا دیا۔ اب کپتان بھی الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لئے ”شیخ الاسلام “اور چودھری برادران کا ہمنوا تھا۔ انہی دنوں پرویز مشرف نے لندن کی پریس کانفرنس میں اڑھائی ، تین سال کے لئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ خود ”شیخ الاسلام “ کو بھی یہ مطالبہ کرنے میں عار نہ رہی تھی۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف پٹیشن میں بھی پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر کے رفیقِ خاص احمد رضا قصوری ”شیخ الاسلام “ کے شانہ بشانہ تھے۔ وفاقی حکومت کے ترجمان اٹارنی جنرل بھی پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے کی تائید کر رہے تھے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اسے مسترد کر دیا تو ”شیخ الاسلام “ آپے سے باہر ہو گئے۔ سیاست نہیں ریاست بچاوٴ کے کھیل میں انہوں نے سپریم کورٹ اور فوج کو بھی ملوث کرنے کی کوشش کی تھی۔ 23 دسمبر کے جلسے میں انہوں نے نگران حکومت کی تشکیل میں فوج اور عدلیہ کوبھی اسٹیک ہولڈر ٹھہرایا۔ پھرحکومت کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں ان دونوں اداروں کو گارنٹر بنانے کی بات کی۔ وہ یہ گمراہ کن تاثر دے رہے تھے کہ اس آئین مخالف کھیل میں انہیں فوج اور عدلیہ کی تائید حاصل ہے۔ 15 دسمبر کو رینٹل پاور کیس کے ملزموں کی گرفتاری کے لئے سپریم کورٹ کے حکم کو انہوں نے اپنی فتح قررار دیا۔ مبارک ہو ، مبارک ہو کی چیخ پکار اور سپریم کورٹ زندہ باد کے نعروں کے ساتھ انہوں نے حاضرین کو شکرانے کے نوافل پڑھنے کی تلقین بھی کی کہ آدھا کام ہو گیا آدھا کل ہو جائے گا۔ یعنی سپریم کورٹ نے اپنے حصے کا آدھا کام کر دیا ۔ اب اپنے حصے کا آدھا کام کل فوج کر دے گی۔ لیکن ادھر چیف جسٹس انتخابات کے التوا کی مزاحمت کا اعلان کر رہے تھے تو ادھر آرمی چیف کا چیف الیکشن کمشنر سے کہنا تھا کہ وہ طاہرالقادری کی بڑھکوں کی فکر نہ کریں اور انتخابات کے بروقت اور منصفانہ انعقاد کے لئے اپنا کام جاری رکھیں۔ حیرت ہے کہ پرویز مشرف کے پہلے پی سی او (2001) کے حلف کے حوالے سے چیف جسٹس کے خلاف زبانِ طعن وہ شخص دراز کر رہا تھا جو 12 اکتوبر سے پہلے مشرف سے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دینے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد بھی وہ اس کا پرجوش حامی و موید رہا۔ مشرف کے ریفرنڈم میں بھی اس نے بھرپور حصہ لیا۔ ریفرنڈم مہم کے جلسوں میں تو ”شیخ الاسلام “کی عوامی تحریک اور کپتان کی تحریک ِ انصاف میں باقاعدہ مقابلے کی فضا پیدا ہو جاتی کہ کس کے جھنڈے زیادہ ہیں اور ڈکٹیٹر کی حمایت میں نعروں کی گونج میں کس کے کارکنوں کا حصہ زیادہ ہے۔ چیف جسٹس نے تو پہلے حلف کا کفارہ دوسرے پی سی او سے انکار کی صورت میں ادا کر دیا اور اس کے لئے ایثار و قربانی اور جرات و استقامت کی وہ تاریخ رقم کی کہ ایک دنیا واہ ،واہ کر اٹھی۔ شامی صاحب کے بقول ”شیخ الاسلام “بھی کینیڈا کی شہریت سے دستبردار ہو کر اپنا کفارہ ادا کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے گزشتہ روز بھی کینیڈین سٹیزن شپ ترک کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تجھ سے تو اے روسیاہ یہ بھی نہ ہو سکا۔
تازہ ترین