• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے ایئر کنڈیشنڈ ہال میں پُر تکلف ناشتے پر جمع ہیں۔ امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر ’خطّے میں علاقائی سلامتی کا محور‘ پر گفتگو کرنے والے ہیں۔ اہتمام کراچی کونسل آن فارن ریلیشن کا ہے۔ اس انتہائی پُرآسائش ماحول میں ہمیں دو ماہ سے گھروں میں مقید کشمیریوں کی یاد ستا رہی ہے۔ میرے دائیں طرف ایک ریٹائرڈ سینئر نیول آفیسر بیٹھے ہیں، چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کشمیریوں کی مدد کا واحد راستہ جنگ ہے۔ میں نے تو اپنے بچوں سے کہہ دیا ہے کہ میں کسی وقت بھی محاذ پر چلا جائوں گا۔ وہ میری گمشدگی پر پریشان نہ ہوں۔ بائیں طرف ایک محقق تشریف فرما ہیں، وہ کہتے ہیں جنگ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہئے اس وقت نشانہ کشمیر نہیں پاکستان ہے۔ ساتھ ہی ایک حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بریگیڈیئر بیٹھے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مودی نے یہ ظالمانہ اقدامات کرکے کشمیر کا مسئلہ زندہ کردیا ہے۔ وہاں جتنا ظلم ہورہا ہے اس کا توڑ جنگ ہی ہے۔ جیسی ہولناک خبریں آرہی ہیں مجھے یقین ہے کہ ہمارے بہادر غیرت مند قبائلی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ وہ 1948کی طرح مقبوضہ کشمیر میں گھس جائیں گے۔

یہاں ریٹائرڈ سینئر فوجی، سول افسرز، بڑے بزنس مین، ماہرین تعلیم ہیں۔ کیمرون منٹر کا لیکچر خالصتاً سفارت کار والا ہے۔ کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کہہ بھی گئے۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر کی بہت زیادہ تعریف، تجزیہ کررہے ہیں کہ اس وقت ہر ملک میں غیر روایتی لیڈر شپ آرہی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ، برطانیہ میں بورس، ترکی میں ایردوان، انڈیا میں مودی، اسی طرح پاکستان میں عمران خان۔ میں اگر چہ قدیم مکتبِ فکر سے متعلق ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیادتیں ہی وقت کی ضرورت ہیں۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے امریکہ پاکستان کو افغانستان کے محدود زاویے سے دیکھتا آرہا ہے۔ پاکستان کو ایک الگ وحدت کے طورپر نہیں دیکھا جا رہا۔ بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں کامیاب ہو سکتا تھا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اب افغانستان میں جنگ بند ہوگی تو پاکستان پر پاکستان کی حیثیت سے توجہ مرکوز ہوگی۔ میں جب پاکستان میں سفیر تھا تو پاکستان سے اچھی خبریں نہیں آتی تھیں۔ اب بہت سی اچھی خبریں آرہی ہیں جن میں سی پیک بھی شامل ہے لیکن ان کا ذاتی خیال تھا کہ پاکستان کو چین کے سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان امریکہ چین دونوں کو بیک وقت اپنا دوست قرار دینا چاہتا ہے تو اسے بہت اسمارٹ ڈپلومیسی کی ضرورت ہوگی۔ کشمیر کے معاملے میں وہ کہہ رہے ہیں وہاں جو مظالم ہورہے ہیں ان کی عالمی سطح پر مذمت ہورہی ہے لیکن کشمیر کی وجہ سے پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل نظر انداز نہیں کرنا چاہئیں۔ تعلیم کی اشاعت ضروری ہے، ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہیں، جہاں تک صدر ٹرمپ کا سوال ہے وہ امریکہ کو سب سے پہلے رکھ رہے ہیں۔ اُن کے سامنے امریکہ کا مستقبل ہے، پاکستان کا مستقبل نہیں لیکن پاکستانی معاشرے اور امریکی معاشرے میں بہت سی مشترک اقدار ہیں۔ دونوں طرف کی نوجوان نسلیں ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھتی ہیں۔ دونوں کے کاروباری حلقے رابطے میں ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیاں یونیورسٹیوں سے۔

سوال جواب کا مرحلہ بہت طویل رہا ہے۔ زیادہ تر سوالات مودی کی جارحانہ پالیسیوں سے متعلق ہیں کہ ان کے شواہد دیکھ کر بھی امریکہ بھارت کو دہشت گرد ریاست کیوں نہیں قرار دیتا اور اس پر اقتصادی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتیں۔ مودی آر ایس ایس کا رکن ہے۔ اس وقت بھارت کی پالیسیاں آر ایس ایس ہی تشکیل دے رہی ہے۔ منٹر جی ظاہر ہے ڈپلومیٹ ہیں۔ وہ ہماری آواز میں آواز ملاکر مودی کو ہٹلر تو نہیں کہہ سکتے۔ خالص سفارت کار کے لہجے میں بیشتر سوالات کے جواب میں ان کا کہنا یہی ہے کہ ٹھوس شواہد متعلقہ فورموں پر پیش کرکے ہی بھارت کا معاملہ طے کیا جاسکتا ہے۔ سوال کی جگہ عام طور پر پوری تقریر کردی جاتی ہے۔ کونسل کے چیئرمین اکرام سہگل اختتامی کلمات میں امریکہ کی بے وفائیوں کا بھی تذکرہ کررہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسائل کا حل حقائق کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے جذبات پر نہیں۔ منٹر سابق سفیر ہی سہی مگر ان کی گفتگو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مزاج اور ذہن کی عکاسی کررہی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ امریکہ کشمیر کے مسئلے میں یا خطّے میں کشیدگی کم کرنے میں کوئی مدد نہیں کرے گا ہمیں خود ہی اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ البتہ یہ نصیحت بہت کارآمد ہے کہ پاکستان کو اپنے اقتصادی، سماجی، تعلیمی، زرعی مسائل کو کشمیر کی صورتحال کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔

کشمیریوں کو جبر و ستم سے نجات دلانے کے لئے کیا کیا راستے ہو سکتے ہیں یہ ہماری یونیورسٹیوں میں زیر بحث آنا چاہئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بحث ہونی چاہئے کہ کیا صرف جنگ ہی ایک راستہ ہے۔ کیا یہ جنگ محدود رہ سکے گی یا بالآخر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر منتج ہوگی۔ یہ بھی خیال رہے کہ جنگ صرف فوج نہیں لڑے گی پوری قوم کو لڑنا ہوگی۔ آسائشیں ترک کرنا ہوں گی۔ کارخانے 24گھنٹے چلیں گے۔ ملک سے کسی کو فرار نہ ہونے دیا جائے۔ راشن محدود کرنا ہوگا۔ اپنے اسلحے کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے دو ملکوں کے درمیان اکیسویں صدی کی ہلاکت خیز ٹیکنالوجی کی موجودگی میں جنگ کے کیا نتائج نکلیں گے اور جس مقصد کے لئےجنگ شروع کی جائے گی کیا وہ حاصل بھی ہوسکے گا یا اس سے بھی بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ ہمارے اہل دانش، ماہرین تعلیم، تاریخ داں، علمائے دین، سائنسدان سب کو اپنی رائے دینی چاہئے۔ قوم اگر واقعی جنگ کو ہی موجودہ مسائل کا حل سمجھتی ہے تو پھر دیر کیوں کی جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ ائےدیں00923004647998)

تازہ ترین