• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اور اہم مسائل پر رائے عامہ منقسم ہوتی ہے اور یہ ایک فطری بات ہے۔ یہی صورتحال مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہے۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں بہت اچھی تقریر کی جس پر تعریف کے ڈونگرے بھی برسائے جاچکے ہیں اور تنقیص بھی کی جا چکی ہے۔

تنقید اور تنقیص حزبِ مخالف کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ابھی صحیح معنوں میں جمہوری کلچر تشکیل نہیں پایا جہاں قومی مسائل کو میرٹ کے ترازو میں تولا جائے، جہاں تعریف میں بھی توازن ہو اور تنقید بھی میرٹ پر ہو۔

یہی حال حکمران پارٹی کا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتی ہے اور وہ ان کا بیانہ یا ’’اظہاریہ‘‘ خوشامد کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔

قلب و نظر کی ’’کوتاہ نظری‘‘ سے نکلنے اور تعصبات سے چھٹکارا پانے میں وقت لگے گا بشرطیکہ جمہوری سفر جاری و ساری رہے۔ وزیراعظم صاحب بلاشبہ اقوام متحدہ میں اچھی تقریر کرکے گھر لوٹے لیکن دنیا کے کس ملک میں حکمرانوں کی واپسی پر جشن برپا ہوتا ہے؟ استقبال کے لئے ملک بھر سے حمایتیوں، کارکنوں اور خوشامدیوں کا انبوہ کثیر جمع کیا جاتا ہے۔

دنیا کے کل ممالک 195میں سے 193اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ 193ممالک کے سربراہان یا ان کے نمائندے اقوام متحدہ میں تقاریر کرکے وطن واپس لوٹے۔ کسی کا بھی استقبال بھنگڑوں، باجوں اور نعروں سے نہیں کیا گیا کیونکہ یہ معمول کے معاملات ہیں اور ان پر خوشامد کا غلاف چڑھانے سے بےپناہ وقت ضائع ہوتا ہے جو قومی زیاں کے زمرے میں آتا ہے۔

بحیثیت قوم ہم وقت ضائع کرنے کے ’’بادشاہ‘‘ ہیں اور یہی ہماری واحد تفریح ہے۔ میرا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ عمران خان اس رسم کے موجد ہیں۔ طویل عرصے سے ہمارے جمہوری وزرائے اعظم کی فتوحات کا جشن منایا جاتا رہا ہے۔ فتوحات کا ذکر ہو تو پاکستانی قوم کو چند لمحے رک کر ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ کشمیر جیسے اہم بین الاقوامی مسئلے اور انسانی حقوق کی حددرجہ پامالی کے ایشو پر 193ممالک سے صرف تین ممالک نے پاکستان کی حمایت کی۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اکثر پاکستانی اپنی ملکی اہمیت اور عالمی سطح پر قومی مقام کے بارے میں اس قدر حسن ظن اور مبالغے کا شکار ہیں کہ غیر ملکی تجزیہ کار اسے ایک ’’فوبیا‘‘ قرار دیتے ہیں جبکہ ہماری اصل حیثیت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے انسانی مسئلے پر بھی ہمیں حمایت نہیں ملتی اور اسلامی ممالک جن پر ہمیں ناز ہےانہوں نے بھی سرد مہری اور خاموشی اختیار کئے رکھی۔

ہاں انہوں نے بھی صرف اس وقت تالی بجائی جب وزیراعظم عمران خان نے ناموس رسالتؐ اور اسلامو فوبیا کا بھرپور ذکر کیا۔ میں طویل عرصے سے اقوام متحدہ اور اس کے اہم اداروں کا نہ ہی صرف مطالعہ کرتا رہا ہوں بلکہ اکثر اوقات سرکاری حیثیت میں ان کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ میکس ویبر کے الفاظ میں اقوام متحدہ محض ایک ڈیبٹنگ سوسائٹی بن کر رہ گئی ہے۔ عملی اقدام سیکورٹی کونسل کا مرہون منت ہوتے ہیں اور سیکورٹی کونسل پر چند ایک ممالک کی اجارہ داری ہے۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی منشا کے بغیر اقوام متحدہ کچھ نہیں کرتی حتیٰ کہ حقائق جاننے کے لئے کمیشن بھی نہیں بھیجتی۔ اس لئے فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہ کم سے کم وزیراعظم کی تقریر نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا، عالمی سطح پر ہمدردی اور مسئلے کی گہرائی کے حوالے سے شعور پیدا کیا۔

اس کارنامے میں بین الاقوامی میڈیا نے اپنا کردار سرانجام دیا جس کے ذریعے ہمارا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پھیلا۔ ناموس رسالتؐ اور اسلام فوبیا دو ایسے موضوعات تھے جنہوں نے ہر مسلمان کے قلب کو متاثر کیا اور پلکوں پر آنسو سجائے۔

سبھی تجزیہ کار اس نقطے پر متفق نظر آئے کہ جب تک پاکستان معاشی حوالے سے مضبوط ملک نہیں بنتا اور دوسروں کی محتاجی سے آزاد نہیں ہوتا، اس وقت تک عالمی سطح پر نہ اہمیت کما سکتا ہے اور نہ باوقار کہلا سکتا ہے۔ معاشی کمزوری اپنی جگہ لیکن ہمیں ’’رفیق‘‘ اور ’’بے وقار‘‘ قوم بنانے میں ہمارے حکمرانوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ خود ہمارا ذاتی اور قومی کردار بھی اس کا ذمہ دار ہے لیکن جب جنرل مشرف ٹی وی پر بیٹھ کر یہ راز فاش کرتا ہے کہ اسے سعودی فرماں روا نے نہ صرف لندن میں قیمتی گھر خرید کر دیا بلکہ اس کے اکائونٹ میں لاتعداد ڈالر اور پائونڈ بھی منتقل کئے، تو اپنی بیچارگی کے باوجود میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

تقریباً ہمارے سارے حکمران امداد، سرپرستی، تحفے و تحائف وغیرہ کے حوالے سے ان مسلمان ممالک کے زیر احسان ہیں۔ پھر کونسی برابری اور عزت کی امید رکھی جائے؟ عمران خان ایک خوددار حکمران ہیں۔ مسلمان ممالک سے قرض مانگا لیکن پھر بھی آئی ایم ایف کا مرہون منت ہونا پڑا۔

سود ہم نے مسلمان ممالک کے قرض پر بھی ادا کرنا ہے اور آئی ایم ایف کو بھی۔ پھر ایک ہی ادارے کے سامنے دامن پھیلا لیتے تو اچھا ہوتا۔ بڑے دعوے کرتے طمطراق سے وزیراعظم کمرشل فلائٹ سے اقوام متحدہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ایک قابل فخر روایت کی بنیاد رکھی اور پھر سعودی عرب جاکر سعودی ولی عہد کے طیارے کا احسان اٹھا لیا۔ کہاں گیا قومی وقار؟

بات شروع ہوئی تھی کہ قوم دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جنگ ناگزیر ہے۔

یہ جنگی حضرات صبح و شام طبل جنگ بجارہے ہیں۔ اکثریتی گروہ کا نقطہ نظر ہے کہ جنگ ہرگز مسئلے کا حل نہیں۔ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ صرف تباہی لائے گی اور کشمیر کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا۔

بین الاقوامی حمایت یا جنگ کی صورت میں امداد کی توقع عبث ہے، البتہ پابندیوں کی کڑیاں مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ میں دو بار جاپان میں ناگاساکی اور ہیروشیما جاچکا ہوں اور ایٹمی تباہی کی تفصیلات پڑھ چکا ہوں۔

میری تجویز ہے کہ جنگی حضرات کو ہوائی جہاز میں بٹھا کر ناگاساکی اور ہیروشیما بھجوا دیا جائے جہاں وہ ان شہروں کی تباہی کا مشاہدہ و مطالعہ کریں ، یہ کار خیر ہے۔ ہے کوئی جو اس کا اہتمام کرے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین