• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1948ءمیں حسن عسکری صاحب نے، بے شمار لکھنے والوں کے ہوتے ہوئے اعلان فرما دیا تھا ’’ادب پر جمود طاری ہے‘‘۔ منٹو کے مقدموں اور بادشاہت کا خاتمہ جیسی تحریروں نے، عسکری صاحب کے نعرے کو پس پشت ڈال دیا۔ مہاجرت کا رنگ، افسانوں اور ناولوں میں فیض صاحب اور قاسمی صاحب، امرتا پریتم سے ہوتا ہوا قرۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین تک پہنچا۔ اسی زمانے میں ادب کے ذریعہ ان خواتین کی مظلومیت کی کہانیاں بھی لکھی گئیں جو اغوا ہوئیں، نام بدل کر سکھ، مسلمان اور ہندو کے نام سے اصل حقیقت میں ہی پہچانی جانے لگیں۔ عورتوں پہ پڑنے والی اس ابتلا نے ایک اور رنگ پکڑا، اروشی بھٹالیہ جیسی لکھنے والیوں نے پاکستان، ہندوستان کے بزرگوں کے انٹرویو کئے اور کتابی صورت میں مرتب کیا۔ ابھی ادب کے موضوعات میں نظم معریٰ پر بحث چلی اور احسان دانش جیسے سنجیدہ لکھنے والوں نے میرا جی اور راشد کو بھی لپیٹتے ہوئے کہا کہ غزل میں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ساتواں شعر، پھر سنائو مگر آزاد نظم کے بارے میں کیا کہیں۔ غزل مافیا کے طبقوں نے مجید امجد کے زمانے تک، مان کے نہیں دیا۔ آخر میں مجید امجد کو بھی چند غزلیں لکھنا پڑیں۔

پاکستان کی تاریخ نے ایک اور پلٹا کھایا۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اب نئے موضوعات ادب میں آگئے۔ دانشوروں کے قتلِ عام اور دونوں حصوں میں اچانک کشیدگی ایسی کہ بنگلہ بولنے والے اردو سننا نہیں چاہتے تھے، ہیں۔ اُمِ عمارہ، سوداشعر، مسعود مفتی، اسد عمر خاں، الطاف فاطمہ اور حمید شاہد نے بھی الگ ہو جانے والے فیصلے کو کبھی درد کے ساتھ اور کبھی حکومتی نالائقیوں کے حوالے سے خوبصورت تحریریں لکھیں مگر پھر بھی بوسیدہ نقادوں نے کہا کہ اتنے بڑے سانحے پر کچھ لکھا نہیں گیا۔ 1970کے زمانے سے نئی نظم یا نثری نظم کا علم لے کر قمر جمیل، احمد ہمیش، مبارک احمد اور افتخار جالب نکلے۔ یہ پچاس سال پرانی تحریک تھی۔ برصغیر میں سب سے پہلے سجاد ظہیر اور ڈاکٹر قمرلاسلام کے مجموعے آچکے تھے۔ پاکستان میں مبارک احمد، افتخار جالب، زاہد ڈار اور عباس اطہر کے بعد، بہت سے نئے اور اچھے لکھنے والوں مثلاً ثروت حسین، ذیشان ساحل، افضال سید، نسرین انجم بھٹی کے علاوہ بمع میرے یعنی گزشتہ پچاس برس سے نثری نظم میں نصیر احمد ناصر، عذرا عباس اور علی محمد فرشی، فہیم جوزی کے علاوہ بہت لکھنے والوں نے نثری نظم کے اثاثے میں اضافہ کیا۔ جس طرح غزل کا مطلب قافیہ آرائی لیا گیا اسی طرح نثری نظم لائنیں توڑنے، کچھ بھی لکھ لینے کو سمجھا جاتا رہا۔ غزل میں تو ہم طفیل ہوشیار پوری اور راحت اندوری کو بھی شاعر سمجھتے ہیں مگر نثری نظم میں امر سندھو اور نور الہدیٰ کے نام لکھے بغیر، تحریر مکمل نہیں ہوتی۔ مختار صدیقی نے موسیقی آمیز نظمیں لکھیں۔ نقادوں نے بھی پسند کیا۔ ضیاء الحق کا زمانۂ سنسر شپ وہ بدعت ہے جس کو ادیبوں نے کیسے سہا۔ ڈاکٹر انور سجاد، اسد محمد خاں اور رشید امجد نے استعارے کو اپنے بیانیے میں شامل کیا۔ اسی زمانے میں فہمیدہ ریاض نے ’’چادر اور چار دیواری، کوتوال بیٹا ہے‘‘ جیسی نظمیں لکھیں اور میری نظم ’’گنہگار عورتیں‘‘ دنیا بھر میں ترجمہ ہوئی اور اسٹیج کی گئی۔ دنیا نے عورت کے اپنے وجود اور معاشرے میں اس کی حیثیت کا تجزیہ کیا۔ فلسطینی اور کالی امریکن عورتوں نے اپنے دکھ اور اپنی نابرابری کو چیلنج کیا پھر اس منظم تحریک اور سوچ کو فیمنزم کا نام دیا گیا۔ آج بھی کچھ لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’ہمارے گائوں میں تو دادی کا حکم چلتا تھا‘‘۔ ساری دنیا میں جنوبی امریکہ سے جنوبی کوریا تک عورتوں کی سوچ کو سمجھنے اور نہ سمجھنے والے برابر نہیں۔

دنیا میں سائنسی سوچ اور تجربات نے روبوٹ بنا کر، انسانوں کا متبادل کہہ کر، ریسٹورنٹ اور گھروں میں کام کروائے۔ ہمارے یہاں گھروں میں مجبور اور مظلوم عورتیں ہوں تو بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ تو بھی معاشرہ، اس کی نفسیاتی وجوہات پہ غور نہیں کرتا۔ آج بھی مسلسل تیسری بیٹی پیدا ہونے پہ کبھی عورت کو طلاق اور کبھی مرد دوسری شادی کر لیتا ہے۔ ہمارے ملک کے نقاد، ان موضوعات سے بیگانہ، لکھتے ہیں ’’نظم کیسے پڑھیں‘‘ یا پھر اگر بڑے افسر کی بیوی ہو تو سب یکمشت کہتے ہیں ’’بھابھی بہت اچھا لکھتی ہیں‘‘۔ غزل ہو کہ نظم، لکھنے والیوں نے موضوعات کی یکسانیت اور اجارہ داری توڑی ہے۔ انہیں مغرب زدہ کہہ کر کب تک جان چھڑائو گے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ نئے پاکستان میں ایک سیکرٹری صاحب ایسے ہمہ داغ داغ آئے کہ آتے ہی فرمایا ’’کیا یہ بے ہودگی ہے۔ غالب، فیض، ان سب کو ہٹائو۔ صرف اقبال کا پورٹریٹ رہنے دو‘‘۔ کیا خوش کلامی ہے اور اب ادب کی باگ ڈور (اگر ہے تو) انہی دشمن جاں کے ہاتھوں میں ہے۔

’’حیراں ہوں دل کو رئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘

تازہ ترین