• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ کو اپنا کوئی پسندیدہ فلمی ستارہ، کرکٹ کا کھلاڑی یا سیاستدان ٹرک پر نظر آئے تو اسے آپ کو غور سے دیکھنا ہوگا کہ یہ اصل ہے یا نقل، یعنی یہ کہیں ’’جعلی‘‘ شخصیت تو نہیں؟ ابھی تک مداح اپنے ستاروں کے آٹو گراف، تصاویر یا یادگار نشانیاں ہی جمع کرتے رہے ہیں مگر اب وہ دن دور نہیں جب ایسا ممکن ہو سکے گا کہ وہ ان شخصیات کی کلوننگ سے اس کے ہمزاد بنوا لیں۔ ہالینڈ کے ایک جریدے کے مطابق اس اندیشے کے پیش نظر جب انسان کا کلون بنانے کی تکنیک کامیاب ہو جائے گی تو لوگ اپنے پسندیدہ قائدین، کھلاڑیوں اور فلمی ستاروں کے کلون بنوا لیں گے۔ ایک امریکی کمپنی نے ڈی این اے کا کاپی رائٹ کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ سان فرانسسکو کے DNAکاپی رائٹ ادارے کے صدر آندرے کریپ نے کہا ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی پسندیدہ شخصیات کا کلون بنوانا چاہتے ہیں، مشہور شخصیات کے ذہنوں کو اس فکر سے بچانے کیلئے ہم DNAکو ریکارڈ کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں جس پر کم از کم ڈھائی سو ڈالر خرچ آئے گا۔

ادھر قبرصی نژاد امریکی سائنس دان پینا یوٹسن ریوس نے انکشاف کیا ہے کہ کلوننگ کے ذریعے انسانی جین تیار کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں اور جلد ہی پہلا کلون انسان تیار کر لیا جائے گا۔ برطانیہ کے نیو سائنٹسٹ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کلون شدہ انسانی جین کی تیاری رواں سال کے آخر یا نئے سال کے آغاز میں مکمل ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں دو ملکوں کی خفیہ لیبارٹریوں میں کام ہو رہا ہے اور اس تحقیق میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم جوڑے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کلون شدہ انسانی جین کے ذریعے دو سو خواتین کو ماں بنائیں گے۔ واضح رہے کہ اس سے پیشتر اٹلی کے ایک سائنس دان نے گزشتہ سال جولائی میں اعلان کیا تھا کہ وہ کلوننگ کے ذریعے انسان پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ وہ دن دور نہیں ہے جب شخصیات کی کلوننگ سے ان کے ہمزاد بنوا لئے جائیں گے۔ اس سلسلے کی بہترین مثال ’’جراسک پارک‘‘ ہے۔ جی ہاں! اس فلم اور اس کے ’’ہیروز‘‘ کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں۔ کروڑوں سال پہلے کی جناتی مخلوق۔ جس کو معدوم ہوئے بھی کروڑوں سال ہو چکے۔ اب اس کی صرف پتھرائی ہوئی باقیات ہی دستیاب ہیں، اسی پتھرائی مخلوق کو سینما کے پردے پر زندہ اور متحرک ہی نہیں ہر طرح کی نقل و حرکت کرتے، دیکھنے کا تجربہ کیسا رہا! یہ فلم دیکھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ آپ نے کسی وقت سوچا کہ یہ مخلوق جس کا وجود ہی نہیں، اس طرح چلتی پھرتی، خوراک کھاتی اور انسانوں کے پیچھے دوڑتی کیسے نظر آ رہی ہے؟ مختصر الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب کمپیوٹرائزڈ انسانی تصویریں، اصلی انسانوں کی طرح خدمات انجام دیا کریں گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی جس کے ساتھ ایک خوش رو حسینہ کی تصویر بھی تھی۔ خبر میں بتایا گیا کہ آپ کو یہ خاتون 24گھنٹے خبریں سنایا کرے گی۔ کیا اس خبر پر آپ کو حیرت ہوئی کہ کون 24گھنٹے ڈیوٹی پر بیٹھا رہ سکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ ان خاتون کا بھی کوئی وجود نہیں، صرف کمپیوٹر کے ایک ماہر کا کمال ہے کہ اس نے ایک ’’حسینہ‘‘ تخلیق کر دی۔ اب آپ جب چاہیں اس کے تبسم ِ دلنواز سے اپنا دل خوش کر سکتے ہیں اور اس کا ’’جلوہ‘‘ دیکھ سکتے ہیں۔ وہ وقت جلد آنیوالا ہے جب آپ ٹی وی پر کوئی ایسا ڈرامہ دیکھیں جس کے سارے کردار کسی کمپیوٹر کے ماہر کی تخلیق ہوں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں... ’’جراسک پارک‘‘ جیسی شاندار فلم اس کا ثبوت دے چکی ہے۔ تو آیئے! ذرا ایک اور بڑھتے قدم کی طرف.... ان کا وجود گوشت پوست، خون اور ہڈیوں وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ ’’بائٹس‘‘ سے تشکیل شدہ ہے اور اس قدر مکمل اور جاذب نظر ہے کہ آپ ان خاتون کو مسکرانے سے لے کر گفتگو کرتے ہوئے بالکل یوں دیکھ سکتے ہیں جیسے یہ سچ مچ آپ کے سامنے موجود ہو۔ اس قدر کہ جب اسکرین پر اس کا چہرہ قریب سے دیکھا جائے تو آپ اس کے چہرے کے مسامات تک ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ نیوٹن (میساچوسٹس) میں ایک چھوٹے سے ادارے نے یہ ’’خاتون‘‘ تخلیق کی ہے اور اس ادارے کے اس کارنامے نے ہالی ووڈ کے ماہرین کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ یہ کیونکر ممکن ہوا، تو صاحب! کہتے ہیں کہ صرف سائنس ہی مستقل سچائی ہے اور یہ کہ امریکہ میں تحقیق و تجربات کیلئے 220بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔

تازہ ترین