• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے نمایاں تاجروں اور صنعتکاروں نے آرمی چیف سے ملاقات میں معاشی جمود پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ سابق حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیوں اور بے دریغ قرضوں کا حصول نہ صرف معاشی بحران کی وجہ بنا بلکہ نگران حکومت کے دور میں ہی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔

موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ صرف اپنے منشور کے برعکس دوست ممالک سے معاونت کی درخواست کرنا پڑی بلکہ نا چاہتے ہوئے آئی ایم ایف کا پروگرام بھی لینا پڑا اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو مشکل فیصلے لینا پڑے، ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے ہی ٹیکس دہندگان کی تعداد میں 6لاکھ تک اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق آئندہ برس معیشت میں بہتری کے اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

حکومت کی طرف سے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن اور شناختی کارڈ کی شرط سے ٹیکس اہلکاروں کی کرپشن اور ٹیکس چوری میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ شناختی کارڈ کی شرط پر تاجر برادری اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہے اور بظاہر آرمی چیف سے ملاقات اسی تناظر میں کی گئی۔ بہتر ہوگا حکومت تاجر برادری کے جائز مطالبات کے حل کی حتی المقدور کوشش کرے؛ تاہم تاجروں پر بھی ملک کے بہترین مفاد میں لازم ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے اور جائز ٹیکس کی ادائیگی کے لئے حکومتی اقدامات کی تائید کریں تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔

اس وقت ملکی معیشت خطرناک حد تک بے یقینی کا شکار ہے۔ وزیراعظم کے اردگرد موجود معاونین ان کو بند گلی میں کھڑا کر چکے ہیں۔ ان کو ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان کے چیدہ چیدہ بزنس ٹائیکونز میں بہت پریشانی ہے۔ بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضا ہے اور ان حالات میں پاکستان کے ممتاز بزنس مینوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حکومتی مشیروں میں اہلیت نظر نہیں آتی، وزیراعظم کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، کاروباری مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ طویل اجلاس کا نتیجہ سامنے نہیں آرہا اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے بھی بزنس کمیونٹی کو شکایات ہیں۔ پاکستان کی انتظامی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیراعظم کے سیکرٹری کی شکایات آرمی چیف کو کی جا رہی ہیں۔

اس سے پیشتر گزشتہ برس جب حکومت کے 100دن پورے ہو رہے تھے تو وزیراعظم نے اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے صحافیوں کو مدعو کیا تھا۔ چند صحافیوں نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے خلاف یہی رائے دی تھی۔ وزیراعظم نے ان صحافیوں کی شکایات پر دھیان نہیں دیا اور آج یہی کیفیت دیکھنے میں آرہی ہے کہ آرمی چیف سے بھی بزنس کمیونٹی باقاعدہ گلے شکوے کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے سرکاری تناظر میں اربابِ اختیار کو معاشی غور اور ترقی و خوشحالی کے دعوئوں کو زمینی حقائق سے جانچنا ہوگا۔

گورننس اور میرٹ سے مشروط اداروں میں جب حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین کا دور دورہ ہو تو کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟ صورتحال یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی سے نالاں ارکانِ اسمبلی بھی اپنی ہی انصاف سرکار کے خلاف پھٹ پڑے ہیں جبکہ ایک رکن اسمبلی تو اپنی حکومت کی گورننس کا رونا روتے روتے خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اکثر ارکانِ اسمبلی تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ اس انصاف سرکار نے تو ہماری سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس طرزِ حکمرانی نے تو ہمیں اس قابلِ ہی نہیں چھوڑا کہ عوام کا سامنا کر سکیں اور آئندہ کسی الیکشن میں ووٹ مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے عوام کی پہنچ سے باہر نکلتی اشیائے ضروریات، گرانی، بچوں کی گمشدگی اور ان سے درندگی کے واقعات کے علاوہ ڈینگی سے متاثرہ مریضوں سے بھرے اسپتال اور ہلاکتوں سمیت دیگر بدانتظامیوں پر پھٹ پڑنے والے حکومتی ارکانِ اسمبلی اور بعض وزرا کی مایوسی دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ یہ حکومت گورننس کی اہلیت اور استطاعت سے محروم ہے۔ عوام کی آس اور اُمید کا قتل کرنے والے نہ تو کوئی فیصلہ عوام کے حق میں کر سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب جو کرنا ہے اس قدرت ہی کو کرنا ہے جس نے ان حکمرانوں کو گورننس عطا تو کی لیکن وہ اس عطا کو اپنی ہی کوئی ادا سمجھ بیٹھے ہیں اور مسلسل خطا در خطا کیے چلے جا رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ 1سال گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان کا عام شہری معاشی مشکلات کے بھنور سے باہر نہیں نکل سکا۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، جہالت، افلاس اور پسماندگی کے ناسور ہیں کہ ملک کی 90فیصد سے زیادہ آبادی کی جان نہیں چھوڑ رہے۔

ایسے حالات میں کہ دوست ممالک موجودہ حکومت کو لگ بھگ 12ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں، آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج منظور ہونے کے بعد دیگر مالیاتی ادارے مزید قرض دینے پر آمادہ ہیں، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں نمایاں کمی اور غیر ملکی ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے، ضروری ہو گیا ہے کہ عام آدمی کو بتدریج سہی معاشی دبائو سے نکالنے کی سبیل کی جائے، ویسے پاکستان کے عام شہری تحریک انصاف حکومت سے جو توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو غربت، مہنگائی اور بیروز گاری سے نکالنے میں مدد دی جائے۔

وزیراعظم کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات اور ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر پیشرفت کی ضرورت ہے کیونکہ اب باتوں کے لئے مزید وقت نہیں بچا ہے۔ محض گفتگو سے عام آدمی کو درپیش مسائل کا نہ خاتمہ ہوگا اور نہ ہی معاشی اصلاحات کے فوائد سماج کی نچلی سطح پر پہنچ سکیں گے۔

تازہ ترین