• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگرچہ میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کے اپنے آئیڈیا پر عمل درآمد فی الحال روک دیا ہے کیونکہ اس پر میڈیا مالکان اور صحافیوں کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے لیکن پاکستان میں آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے حوالے سے حالات کسی بھی طرح اچھے نہیں ہیں۔ میڈیا ہاؤسز اور عامل صحافیوں پر بھی بہت برا وقت ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے حالات ایک جمہوری حکومت کے دور میں پیدا ہوئے ہیں۔

میڈیا ٹربیونلز یا میڈیا کورٹس قائم کرنے کی بات از خود ایک ’’مائنڈ سیٹ‘‘ کا اظہار ہے یہ خیال تحریک انصاف کے حکمرانوں کے ذہنوں میں اچانک نہیں آیا ہو گا۔ جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت بننے کے فوراً بعد ہی محسوس ہونے لگا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت میڈیا اور آزادیٔ صحافت کے بارے میں کیا سوچ رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے ذریعہ اس سوچ کا اظہار کیا گیا۔ مختلف ٹویٹس اور پوسٹوں کے ذریعے یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ حکومت پر تنقید کا مطلب ریاست پر تنقید ہے اور ریاست پر تنقید غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اشتہارات کی نہ صرف نئی پالیسی بنائی بلکہ سرکاری اشتہارات کے نرخ بھی کم کر دیئے۔ فواد چوہدری نے مختلف مواقع پر یہ باور کرایا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی اہمیت زیادہ ہے۔ شاید فواد چوہدری سمیت تحریک انصاف کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ سوشل میڈیا پر یکطرفہ پروپیگنڈا زیادہ آسان ہے۔ پھر یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ سوشل میڈیا میں لکھنے والے لوگوں کے خلاف سب سے زیادہ کریک ڈاؤن اسی حکومت کے دور میں ہوا۔ اس بات کا مشاہدہ بھی پوری دنیا نے کیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا جیو نیوز پر انٹرویو اچانک رکوا دیا گیا۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ مریم نواز کی پریس کانفرنس اور ریلیوں کی لائیو کوریج کرنے والے بعض ٹی وی چینلز کی نشریات بند کر دی گئیں۔ ٹی وی چینلز کی ٹرانسمیشن کو معطل کیا گیا، روکا گیا یا چینلز کو آخری نمبروں پر پھینک دیا گیا۔ اسی دورِ حکومت میں کچھ صحافیوں کے پروگرامز بند کیے گئے اور کچھ صحافیوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا اور انہیں نوکریوں سے فارغ کرایا گیا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اخبارات کو پڑھ کر اور ٹی وی چینلز کو دیکھ کر عام آدمی بھی یہ محسوس کر رہا ہے کہ اختلافِ رائے کی گنجائش کم ہو گئی ہے یا اختلافِ رائے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں میڈیا کی ساکھ اور اعتبار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سے میڈیا انڈسٹری کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں میڈیا کے حوالے سے جو کچھ ہوا ہے، اسے صحافیوں کی عالمی تنظیم ’’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز ‘ (آر ایس ایف) نے وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے کھلے خط میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ یہ خط از خود ایک چارج شیٹ ہے۔ اس خط میں ان واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں اور بھی کئی واقعات کی دستاویز بندی کی گئی ہے۔

گزشتہ سال جولائی میں واشنگٹن میں یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا ’’پاکستانی میڈیا برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے۔ پاکستانی میڈیا نہ صرف آزاد ہے بلکہ کبھی کبھی آؤٹ آف کنٹرول بھی ہو جاتا ہے‘‘ لیکن آر ایس ایف کی پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان اس سال 142ویں نمبر پر آگیا ہے حالانکہ گزشتہ سال پاکستان 139ویں نمبر پر تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آزادیٔ صحافت کے حوالے سے پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران حالات بہت زیادہ خراب ہوئے ہیں۔

میڈیا کورٹس یا میڈیا ٹربیونلز کا آئیڈیا خصوصی عدالتوں جیسا ہے۔ پاکستان میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل زیادہ تر غیر جمہوری ادوار میں ہوئی۔ اس سے نہ صرف عدلیہ کا متوازی نظام قائم ہوا بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کا یہ کہنا درست ہے کہ تمام خصوصی عدالتیں ختم ہونی چاہئیں اور تمام عدالتیں ایک عدالتی ڈھانچے کا حصہ ہوں۔ البتہ ضلعی عدلیہ میں مختلف شعبوں کے ماہر ججز ہوں۔ میڈیا کے لئے الگ خصوصی عدالتیں بنانے کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ میڈیا کو انتظامی اداروں کے بجائے عدالتوں کے ذریعہ کنٹرول کیا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو چاہئے کہ وہ آزادیٔ صحافت، آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ اختلافِ رائے کی اہمیت کے بارے میں ازسر نو غور کرے۔ ان آزادیوں کے بغیر جمہوری اور کثرتیت والا معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی قوم تہذیب و ترقی کی اگلی منازل طے کر سکتی ہے۔ ایسے ہر اقدام سے گریز کرنا چاہئے، جس سے براہ راست یا بالواسطہ اختلاف رائے کی گنجائش کم ہو۔ آزاد میڈیا ایک قومی ادارہ اور تاثر ہوتا ہے، اسے بحران سے بچانا بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں میڈیا کے حوالے سے جو کچھ ہو چکا ہے، اگر اس کا ازالہ نہ ہوا تو ایک جمہوری سیاسی جماعت کی حیثیت سے تحریک انصاف کی ساکھ کے لئے یہ نقصان دہ ہوگا۔

تازہ ترین